Maktaba Wahhabi

208 - 430
صرف چند باتوں پر غور کریں تو اس کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ مثلاً: 1- اگر بُت گرانے کے لیے رفع یدین کا حکم دیا گیا تھا تو پھر صرف پہلی تکبیر والی رفع یدین ہی کافی تھی اور اگر اس کے باوجود وہ انھیں سنبھال سکتے تھے تو پھر وہ ساری نماز میں بھی سنبھال کر رکھ سکتے تھے۔ 2- کیا اس افسانے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عالمِ غیب ماننے والوں کو اپنے عقیدے پر زد پڑتی نظر نہیں آتی؟ بُت لانے کی بات بھی مانتے ہیں اور عالمِ غیب بھی گردانتے ہیں۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالمِ غیب ہوتے تو اس کام کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ صاف کہہ دیا جاتا کہ فلاں فلاں شخص اپنی بغلوں سے بُت نکال کر آئے۔ 3- بُت وہ بغلوں یا آستینوں ہی میں کیوں لاتے تھے؟ وہ اتنا بھی نہیں جانتے تھے کہ انھیں جیبوں میں بھر لانا آسان ہے؟ 4- کبھی پتا چلا ہو کہ جب کسی کی بغلوں کے بُت گرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی سزا دی یا ڈانٹ پلائی ہو؟ ایسا کوئی واقعہ کسی حدیث میں آیا ہو؟ ہر گز نہیں! 5- بلکہ نماز باجماعت کا حکم تو مدینہ منورہ میں ہوا جہاں بُت تھے ہی نہیں اور مکہ مکرمہ میں جہاں بُت تھے وہاں نماز کی جماعت فرض نہیں تھی۔ پھر یہ بتوں کی کہانی گھڑنے سے حاصل؟ الغرض مانعین کے تمام دلائل اور ان کا جائزہ تفصیل کے ساتھ دیکھنا ہو تو ہماری کتاب ’’رفع یدین۔۔۔‘‘ کا مطالعہ انتہائی مفید ثابت ہوگا۔ إن شاء االلّٰه ۔
Flag Counter