Maktaba Wahhabi

191 - 430
اس مطلق حکم والی حدیث کے علاوہ بعض دوسری احادیث میں بعض سورتوں کی کچھ مخصوص آیات کا تذکرہ بھی ملتا ہے، جن کا جواب دیا گیا اور دینا چاہیے۔ چنانچہ اس سلسلے میں ابو داود، بیہقی اور دیگر کتب میں ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سورۃ القیامہ کی چالیسویں (۴۰) اور آخری آیت: ﴿أَلَيْسَ ذَٰلِكَ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَىٰ﴾ پڑھتے تو (( سُبْحَانَکَ فَبَلٰی )) کہتے اور جب سورۃ الاعلیٰ کی پہلی آیت ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴾ پڑھتے تو (( سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی )) کہتے تھے۔ [1] جس طرح سورۃ القیامہ اور سورۃ الاعلیٰ کی آیتوں کا جواب ثابت ہے ، اسی طرح سورۃ الرحمن کی آیت ﴿ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴾ کا جواب دینا بھی جائز ہے، کیوں کہ سنن ترمذی اور مستدرک حاکم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام کے سامنے پوری سورۃ الرحمن پڑھی اور وہ خاموشی سے سنتے رہے۔ تو اس پر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جِنّوں کو وعظ کی رات میں نے یہ سورت جِنّوں کے سامنے پڑھی تو وہ جواب دینے میں تم سے بہتر تھے۔ کیوں کہ میں جب بھی اس آیت پر آتا:﴿ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴾ (تم اللہ کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟) تو جن جواب دیتے تھے: ’’لَا شَیْیٌٔ مِنْ نِعَمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ فَلَکَ الْحَمْدُ‘‘ (اے ہمارے ربّ! ہم تیری کسی بھی نعمت کا انکار نہیں کرتے اور ہر قسم کی تعریف تیرے ہی لیے ہے)۔‘‘ [2] اس سے معلوم ہوا کہ سورۃ الرحمن پڑھتے وقت یا تلاوت کرتے وقت قرآن پڑھنے والا اور اسے سننے والا اس آیت کے جواب میں یہ الفاظ کہہ سکتا ہے، لیکن ان
Flag Counter