Maktaba Wahhabi

149 - 430
بھی آمین بالجہر کے قائل و فاعل تھے۔[1] بڑے بڑے علمائے احناف بھی جہر کے قائل تھے، جیسا کہ شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی رحمہ اللہ (فتاویٰ اولیائے کرام و فقہائے عظام، ص: ۳۴ طبع شارجہ)، ان کے بھتیجے (محض برسبیلِ تذکرہ) شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ (تنویر العینین، ص: ۷۱)، امام ابن الہمام (فتح القدیر شرح ہدایہ: ۱/ ۱۱۷)، علامہ عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ (التعلیق الممجد علیٰ موطا امام محمد، ص: ۱۰۵، فتاویٰ عبدالحي: ۱/ ۱۷۵، ۲/ ۲۷۰، السعایۃ حاشیہ شرح وقایۃ: ۱/ ۱۳۶)، شیخ عبدالحق دہلوی رحمہ اللہ (مدارج النبوۃ، ص: ۲۰۱، بحوالہ آمین بالجہر مولانا نور حسین گھرجاکھی، ص: ۲۶)، علامہ سراج احمد سرہندی رحمہ اللہ (شرح ترمذی بحوالہ إبکار المنن علامہ عبدالرحمن مبارک پوری، ص: ۱۸۱)، امیر ابن الحاج (التعلیق الممجد، ص: ۱۰۵)، مولانا عبدالعلی بحر العلوم لکھنوی (ارکان الاسلام [ارکانِ اربعہ] بحوالہ آمین بالجہر مولانا نور حسین گھرجاکھی، ص: ۲۶)، امام طحاوی رحمہ اللہ (ردّ المحتار حاشیہ درمختار المعروف فتاویٰ شامیہ، بحوالہ آمین بالجہر أیضاً)، ابن الترکمانی ماوردی (الجوہر النقی حاشیہ سنن بیہقی بحوالہ عمدۃ القاري: ۳/ ۶/ ۵۱ و آمین بالجہر أیضاً)، علامہ رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ (سبیل الرشاد، ص: ۲۰، و فتاویٰ رشیدیہ، ص: ۷۲) نے کہا ہے۔ یہاں ان دس معروف علمائے احناف کے اسمائے گرامی اور حوالے کی کتابوں کے نام ذکر کرنے پر اکتفا کر رہے ہیں۔ اس کی تفصیل ہم نے اس مسئلے سے متعلق اپنی کتاب میں دے دی ہے۔[2]
Flag Counter