Maktaba Wahhabi

95 - 90
حق میں جا رہا ہے جو تین کو الگ الگ رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بیک کلمہ تین طلاقیں کم سے کم تین نہیں سمجھی جائیں گی کیونکہ یہ تین مرتبہ واقع نہیں کی گئی ہیں‘ تو اب مولانا عامر عثمانی صاحب احناف کی ان متفقہ تصریحوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اصرار کر رہے ہیں کہ ان بزرگوں نے جو سمجھا ‘ غلط سمجھا۔ یہاں بھی یہ ’’اثنین‘‘ ہی کے معنی میں ہے سوال یہ ہے کہ اگر اس کا احتمال تھا کہ ’’مرتان‘‘ یہاں ’’اثنین‘‘ کے معنی میں بھی ہو سکتا ہے‘ تو آخر ’’اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال‘‘ کے باوجود محققین احناف کیوں کہتے چلے آرہے ہیں کہ مرتان ’’اثنین‘‘ کے معنی میں نہیں ہے۔‘‘ (مقالات ص۱۹۶) یہ اقتباس احناف کے سلف و خلف دونوں کے طریق کار ‘ طرز استدلال اور مسلکی تعصب پر پوری طرح روشنی ڈال رہا ہے یعنی ان حضرات کو حقیقت تک پہنچنے اور اسے قبول کرنے سے غرض نہیں ہوتی‘ بلکہ ان کا اصل ہدف اپنے مخالف کے خلاف محاذ آرائی قائم کرنا ہوتا ہے اور ان کے نزدیک حالات کی تبدیلی کے ساتھ طرز استدلال کے بدل لینے میں بھی کچھ حرج نہیں ہے۔ دوسرے مسلک پر عمل: میں نے لکھا تھا ’’چونکہ یہ فتویٰ (یک بارگی تین طلاق کو تین ہی شمار کرنا) انسانی فطرت کے خلاف ہے اور اس کے مفاسد بے شمار ہیں، لہٰذا احناف کا ایک کثیر طبقہ امام صاحب کے اس فتویٰ سے متفق نہیں ہے وہ مالکیہ کے مطابق اسے ایک ہی طلاق قرار دیتے ہیں‘‘ اس پر قاری صاحب فرماتے ہیں کہ: ’’فاضل مولف کی یہ دونوں باتیں غلظ ہیں۔ احناف کا کثیر طبقہ امام صاحب کے اس فتویٰ سے متفق ہے اور امام مالک تین طلاق کو ایک قرار نہیں دیتے۔‘‘ اس سلسلہ میں گزارش یہ ہے کہ اگر میں اکثر کا لفظ استعمال کرتا تو واقعی اس سے یہ مفہوم پیدا ہو سکتا تھا کہ تھوڑے حنفی ہیں جو امام صاحب کے اس فتویٰ سے اتفاق رکھتے ہیں اور زیادہ مخالف ہیں‘ لیکن فی الواقع یہ صورت نہیں۔ قلت اور کثرت تعداد کا لحاظ رکھا جائے تو فی
Flag Counter