ایک یہ کہ وہ نیک عمل اللہ تعالیٰ کی توفیق سے انجام پایا، لہذا وہی حمدوثناء اور شکر کا مستحق ہے۔ دوسری یہ کہ اس نیک عمل کی اسی نے جزاء دینی ہےاور اضعافا مضاعفۃ اجر عطافرماناہے،جس پر وہی ذات تعریف کی مستحق ہے۔ بُرے اعمال پر اپنے نفس کوملامت کریں نہ کہ تقدیر کے کھاتے میں ڈالیں (۲۰) انسان اپنے اعمال میں جوبرائیاں پائے،ان پر اپنے نفس کو ملامت کرے؛کیونکہ قرآن وحدیث کی اس پر حجت قائم ہوچکی ہے،لہذا برائیوں کے ارتکاب پر اس کا نفس ہی ملامت کامستحق ہے۔ کچھ لوگ برائیوں کے ارتکاب کو تقدیر کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں، ایسے لوگوں سے پوچھاجائےکہ کیا اس گناہ کے ارتکاب سے قبل آپ کو علم تھا کہ تقدیر میں ایسا ہی لکھاہواہے؟ آپ نے گناہ کا ارتکاب نوشتۂ تقدیر کی بناء پر نہیں کیا؛کیونکہ آپ کو اپنی تقدیر کا علم ہی نہیں۔ آپ نے گناہ کا ارتکاب جان بوجھ کر اپنے شریر نفس کی خواہش کی تکمیل پر کیاہے،لہذا یہ نفس ہی ملامت کامستحق ہے۔ واللہ تعالیٰ ولی التوفیق وصلی علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وأھل طاعتہ أجمعین. |
Book Name | حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 144 |
Introduction | یہ کتاب دراصل ایک حدیث کی تشریح پر مشتمل ہے ، یہ حدیث ، حدیث قدسی ہے اور چونکہ اس کے راوی سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں اسی لئے اسی نام سے ذکر کی گئی ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دس فرامین جو بندے کے لئے ہیں ان کا بیان ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:شامی رواۃ کی یہ سب سے عمدہ حدیث ہے۔ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابوادریس الخولانی جب بھی اس حدیث کو روایت کرتے تو بڑے ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر بیٹھ جاتے،یہ حدیث عظیم المعانی اور کثیر المقاصد ہے،اس میں بہت سے اعتقادی،عملی اور تربوی مسائل کا خزانہ موجودہے۔ یقیناً اس حدیث کی شرح میں محترم شیخ صاحب نے بڑا علمی مواد جمع کردیا ہے۔ |