یعنی: بے شک عدل کرنے والے (روزِ قیامت)اللہ کے پاس نور کے منبروں پر جلوہ گر ہونگے،یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلوں میں اور اپنے اہل وعیال میں اور اپنے تفویض کردہ عہدہ میں عدل قائم رکھا کرتے تھے۔ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سات افراد کا ذکر فرمایا ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن میدانِ محشر میں سایہ عطافرمائے گا،ان میں سے ایک امام عادل ہے۔ ہمارے عدل کے اولین مستحق،اللہ اور اس کارسول ہیں واضح ہو کہ ہمارے عدل کا پہلا مستحق،اللہ رب العزت ہے،چنانچہ ہم اس کی توحید کی معرفت حاصل کریں اور اس کی ربوبیت ،الوہیت اور اسماء وصفات میں کسی قسم کا شرک روانہ رکھیں،قرآن حکیم نے شرک کو ظلم عظیم قرار دیا ہے،اللہ تعالیٰ کے ساتھ عدل کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اس کی اطاعت کریں اور کبھی اس کی نافرمانی نہ کریں،اور ہمیشہ اس کاذکر کرتے رہیں اور کبھی اسے نہ بھولیں،اورہمیشہ اس کی نعمتوں کا شکر اداکرتے رہیں اور کبھی ناشکری نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہمارے عدل کی مستحق ہیں،جس کاتقاضا یہ ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے آپ کے جملہ حقوق پورے کرتے رہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ،آپ کا اولین حق ہے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی |
Book Name | حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 144 |
Introduction | یہ کتاب دراصل ایک حدیث کی تشریح پر مشتمل ہے ، یہ حدیث ، حدیث قدسی ہے اور چونکہ اس کے راوی سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں اسی لئے اسی نام سے ذکر کی گئی ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دس فرامین جو بندے کے لئے ہیں ان کا بیان ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:شامی رواۃ کی یہ سب سے عمدہ حدیث ہے۔ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابوادریس الخولانی جب بھی اس حدیث کو روایت کرتے تو بڑے ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر بیٹھ جاتے،یہ حدیث عظیم المعانی اور کثیر المقاصد ہے،اس میں بہت سے اعتقادی،عملی اور تربوی مسائل کا خزانہ موجودہے۔ یقیناً اس حدیث کی شرح میں محترم شیخ صاحب نے بڑا علمی مواد جمع کردیا ہے۔ |