اے میرے بندو!اگر تمہارے تمام اگلے اور پچھلے اور تمام انسان وجن،ایک میدان میں جمع ہوکربیک وقت مجھ سے (جوچاہیں )مانگنے لگیں،اور میں اسی وقت سب کا سوال پوراکردوں تو میرے خزانوں میں اتنی کمی بھی واقع نہیں ہوگی،جو سوئی کے سمندر میں ڈبوکر نکالنے سے ،اس سمندر میں واقع ہوتی ہے۔ اے میرے بندو!تمہارے اعمال ہی ہیں جنہیں میں تمہارے لئے شمار کررہا ہوں،پھر ان اعمال کا تمہیں پوراپورا بدلہ دونگا،لہذا جوشخص اپنے اعمال میں نیکیاں پاتا ہے وہ خوب اللہ تعالیٰ کا شکراداکرتارہے ،اورجوشخص برائیاں پاتاہے وہ صرف اپنے آپ کو ملامت کرتارہے۔‘‘ حدیث قدسی اور اس کا دیگر احادیث اورقرآن سے فرق جس حدیث کو رسول اللہ اپنے رب تعالیٰ کی طرف منسوب فرمادیں،اسے حدیثِ قدسی کہاجاتاہے، توگویا حدیثِ قدسی ہر وہ حدیث ہے،جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب عزوجل سے روایت فرمائیں۔ قرآن وحدیث دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں،[وَاَنْزَلَ اللہُ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ ][1] [وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰى۳ۭ اِنْ ہُوَاِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى۴ۙ][2] |
Book Name | حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 144 |
Introduction | یہ کتاب دراصل ایک حدیث کی تشریح پر مشتمل ہے ، یہ حدیث ، حدیث قدسی ہے اور چونکہ اس کے راوی سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں اسی لئے اسی نام سے ذکر کی گئی ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دس فرامین جو بندے کے لئے ہیں ان کا بیان ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:شامی رواۃ کی یہ سب سے عمدہ حدیث ہے۔ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابوادریس الخولانی جب بھی اس حدیث کو روایت کرتے تو بڑے ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر بیٹھ جاتے،یہ حدیث عظیم المعانی اور کثیر المقاصد ہے،اس میں بہت سے اعتقادی،عملی اور تربوی مسائل کا خزانہ موجودہے۔ یقیناً اس حدیث کی شرح میں محترم شیخ صاحب نے بڑا علمی مواد جمع کردیا ہے۔ |