روگردانی کی تو رسول کے ذمے تو صرف وہی ہے جو اس پرلازم کردیا گیا ہے اور تم پر اس کی جوابدہی ہے جو تم پر رکھا گیا ہے ہدایت تو تمہیں اسی وقت ملے گی جب رسول کی ماتحتی کرو۔ سنو رسول کے ذمے تو صرف صاف طور پر پہنچا دینا ہے ۔ آیت کریمہ کے اس جملے پر خوب غور کیاجائے:’’ہدایت تو تمہیں اسی وقت ملے گی جب رسول کی ماتحتی کرو۔ ‘‘ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے روگردانی برتے اور دوسروں کی پیروی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لے،اور وہ ہدایت کی دعائیں کرتا رہے، تو اسے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ طالبِ ہدایت کی دوذمہ داریاں لہذا جو شخص صدقِ دل سے ہدایت کاطالب ہے،اس کی دوذمہ داریاں ہیں: ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت کا سوال کرتا رہے،اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی ہدایت دینے پر قادر نہیں ہے، اسی لئے حدیث میں یہ جملہ وارد ہوا ہے:(فاستھدونی أھدکم)یعنی: پس تم سب مجھ سے ہدایت طلب کرو، میں ہی تمہیں ہدایت دونگا۔ دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ ہدایت کی دعا کے ساتھ ساتھ صحیح طریقِ ہدایت بھی سمجھ لے اور پوری قوت سے اختیار کرلے،صحیح طریقِ ہدایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کی پیروی ہے،اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات فرماگئے : (ترکت فیکم ما إن أعتصمتم فلن تضلوا أبداکتاب اللہ وسنتی) یعنی:تمہارے بیچ جوکچھ میں |
Book Name | حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 144 |
Introduction | یہ کتاب دراصل ایک حدیث کی تشریح پر مشتمل ہے ، یہ حدیث ، حدیث قدسی ہے اور چونکہ اس کے راوی سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں اسی لئے اسی نام سے ذکر کی گئی ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دس فرامین جو بندے کے لئے ہیں ان کا بیان ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:شامی رواۃ کی یہ سب سے عمدہ حدیث ہے۔ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابوادریس الخولانی جب بھی اس حدیث کو روایت کرتے تو بڑے ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر بیٹھ جاتے،یہ حدیث عظیم المعانی اور کثیر المقاصد ہے،اس میں بہت سے اعتقادی،عملی اور تربوی مسائل کا خزانہ موجودہے۔ یقیناً اس حدیث کی شرح میں محترم شیخ صاحب نے بڑا علمی مواد جمع کردیا ہے۔ |