حدیث سے حاصل ہونے والے فوائدومسائل (۱) ذخیرۂ حدیث میں کچھ احادیث ایسی ہیں،جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب تعالیٰ سے روایت فرمایا ہے،ایسی حدیث کو حدیثِ قدسی کہا جاتاہے،اور یہ سند کا سب سے اعلیٰ مرتبہ شمارہوتاہے؛کیونکہ حدیث کی شان اور مرتبہ ومقام انتہاءِ سند کے ساتھ مرتبط ہے،چنانچہ اگر انتہاءِ سند تابعی ہو تو وہ حدیث اصطلاحی طور پر مقطوع کہلاتی ہے،اور اگر صحابی ہوتو موقوف،اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوںتو اس حدیث کو مرفوع کہاجاتاہے،اور اگر انتہاءِ سند ذاتِ باری تعالیٰ ہو تو وہ حدیث قدسی کہلاتی ہے۔ حدیثِ قدسی کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے رب سے روایت ہوتی ہے ،اگرچہ کچھ علماء نے یہ بحث کی ہے کہ حدیثِ قدسی کے الفاظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے،بعض کا موقف یہ ہے کہ حدیثِ قدسی لفظاً ومعنیً اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ،بعض کا موقف یہ ہے کہ حدیثِ قدسی قولاًاللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہوتے ہیں،لیکن یہ سب باتیں یابحثیں وہ تکلف یا تعمق ہیں جن سے شریعت نے روکا ہے،اتنا ہی کافی ہے کہ حدیثِ قدسی وہ حدیث ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے روایت فرمائیں،اور وہ سند کے اعلیٰ ترین مرتبہ پر فائز ہیں۔ |
Book Name | حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 144 |
Introduction | یہ کتاب دراصل ایک حدیث کی تشریح پر مشتمل ہے ، یہ حدیث ، حدیث قدسی ہے اور چونکہ اس کے راوی سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں اسی لئے اسی نام سے ذکر کی گئی ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دس فرامین جو بندے کے لئے ہیں ان کا بیان ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:شامی رواۃ کی یہ سب سے عمدہ حدیث ہے۔ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابوادریس الخولانی جب بھی اس حدیث کو روایت کرتے تو بڑے ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر بیٹھ جاتے،یہ حدیث عظیم المعانی اور کثیر المقاصد ہے،اس میں بہت سے اعتقادی،عملی اور تربوی مسائل کا خزانہ موجودہے۔ یقیناً اس حدیث کی شرح میں محترم شیخ صاحب نے بڑا علمی مواد جمع کردیا ہے۔ |