یعنی:تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں،جس نے مجھے یہ لباس پہنادیا،اور مجھے عطاء فرمادیا ،حالانکہ یہ میری طاقت اور استطاعت میں بالکل نہ تھا۔ اس دعا سے ثابت ہوا کہ لباس کے حصول تک کی بندہ میں استطاعت نہیں ہے،اور یہ محض اللہ تعالیٰ کے امر سے عطاء ہوتاہے،نیز یہ کہ لباس کے حصول پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجالایاجائے،اور اپنے جسم کو ڈھانپا جائے،جو انسان کے حشمت ووقار کی علامت ہے، بالخصوص خواتین جن کا جسم سرکی چوٹی سے لیکر پاؤں کے ناخن تک پردہ ہے،حصولِ لباس پر بہت زیادہ اللہ تعالیٰ کا شکراداکریں اور اس لباس سے اپنے پورے بدن کو ڈھانپنے کی شرعی واخلاقی ذمہ داری پوری کریں۔ پردہ کے متعلق ایک افسوسناک حقیقت لیکن یہ افسوس ناک حقیقت ہے کہ آج خواتین کو بے تحاشا لباس مہیا ہیں مگر وہ اپنے جسم کو ڈھانپنے اور چھپائے رکھنے کے تقاضے پورے نہیں کرتیں ، ان کالباس یا تو اس قدر چھوٹاہوتاہے کہ جسے پہننے کے باوجود جسم کا بہت سا حصہ برہنہ ہوتاہے،یاپھر اس قدر باریک ہوتاہے کہ جسے پہننے کے باوجود، اندرسے جسم جھانکتا اور چھلکتاہے،یا پھر اس قدرتنگ ہوتا ہے کہ جسے پہننے کے باوجودجسم کے نشیب وفراز عیاں ہوتے رہتے ہیں: عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : (صنفان من أھل النار لم أرھما:قوم معھم سیاط کأذناب البقر، |
Book Name | حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 144 |
Introduction | یہ کتاب دراصل ایک حدیث کی تشریح پر مشتمل ہے ، یہ حدیث ، حدیث قدسی ہے اور چونکہ اس کے راوی سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں اسی لئے اسی نام سے ذکر کی گئی ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دس فرامین جو بندے کے لئے ہیں ان کا بیان ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:شامی رواۃ کی یہ سب سے عمدہ حدیث ہے۔ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابوادریس الخولانی جب بھی اس حدیث کو روایت کرتے تو بڑے ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر بیٹھ جاتے،یہ حدیث عظیم المعانی اور کثیر المقاصد ہے،اس میں بہت سے اعتقادی،عملی اور تربوی مسائل کا خزانہ موجودہے۔ یقیناً اس حدیث کی شرح میں محترم شیخ صاحب نے بڑا علمی مواد جمع کردیا ہے۔ |