امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ظلم کا اصل معنی:حد سے تجاوز کرنا ہے، اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کے حق میں محال ہے؛کیونکہ اللہ تعالیٰ کیلئے حدبندی کون کرسکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی صفات میں حسنِ ادب کا ایک اہم پہلو اللہ تعالیٰ کی صفات میں حسنِ ادب کا ایک لازمی پہلو یہ ہے کہ جب اس کی ذات سے کسی بھی صفتِ نقص کی نفی کی جائے گی تو اس کے مقابلے میں جو صفتِ کمال ہوگی،اس کا اللہ تعالیٰ کیلئے لازماً اثبات کیاجائے گا،توظلم کے مقابلے میں عدل ہے ،اللہ تعالیٰ ظلم نہیں فرماتا،بلکہ وہ ذات کمالِ عدل سے متصف ہے۔ ظلم چونکہ ایک ناپسندیدہ اور انتہائی معیوب خصلت ہے،لہذا اللہ تعالیٰ سے اس کا صدور مستحیل ہے،اور اللہ تعالیٰ نے بندوں پر بھی ظلم حرام کردیا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :وجعلتہ بینکم محرماکہ میں نے تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام قراردے دیا ہے۔ ’’فلا تظالموا‘‘یہ ’ظا‘کے فتحہ اور تشدید کے ساتھ ہے،جو اصل میں ’’تتظالموا‘‘ تھا،باب تفاعل کے فاء کلمہ میں ’ظا ‘آگئی ،لہذا بمطابقِ قاعدہ تاءِ تفاعل کو ’ظا‘ میں تبدیل کیا گیا اور’ ظا‘ کو ’ظا‘میں ادغام کردیاگیا۔باب تفاعل میں مشارکت کا معنی پایاجاتاہے،اس لئے ’’لاتظالموا‘‘ کا معنی یہ ہوگا کہ تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو،اور یہ جملہ ،سابقہ جملہ وجعلتہ بینکم محرماکی تاکید ہے،گویا اس حدیث میں بڑی تاکید کے ساتھ ظلم |
Book Name | حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 144 |
Introduction | یہ کتاب دراصل ایک حدیث کی تشریح پر مشتمل ہے ، یہ حدیث ، حدیث قدسی ہے اور چونکہ اس کے راوی سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں اسی لئے اسی نام سے ذکر کی گئی ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دس فرامین جو بندے کے لئے ہیں ان کا بیان ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:شامی رواۃ کی یہ سب سے عمدہ حدیث ہے۔ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابوادریس الخولانی جب بھی اس حدیث کو روایت کرتے تو بڑے ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر بیٹھ جاتے،یہ حدیث عظیم المعانی اور کثیر المقاصد ہے،اس میں بہت سے اعتقادی،عملی اور تربوی مسائل کا خزانہ موجودہے۔ یقیناً اس حدیث کی شرح میں محترم شیخ صاحب نے بڑا علمی مواد جمع کردیا ہے۔ |