Maktaba Wahhabi

71 - 90
ڈرا‘ میں تیرے لیے اس سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں پاتا ہوں۔ تو نے اﷲ کی نافرمانی کی ہے‘ تیری بیوی تجھ سے جدا ہو گئی۔‘‘ (ابوداؤد ص۲۹۹ ‘ بحوالہ منہاج ص۳۱۰) مندرجہ ذیل فتویٰ سے دو باتیں معلوم ہوئی: (۱) حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ راوی جو ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طبیعت سے خوب واقف تھے، انہیں طلاق دینے والے کی بات سننے کے بعد بھی یہی گمان ہوا تھا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ایسی طلاقوں کو ایک طلاق شمار کر کے اس کی بیوی کو واپس لوٹا دیں گے۔ گویا سنجیدہ صورت حال میں آپ رضی اللہ عنہ کا فتویٰ یہی ہوتا تھا کہ ایک مجلس کی تین طلاق حقیقتاً ایک ہی ہوتی ہے۔ (۲) فتویٰ کے الفاظ سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ یہ فتویٰ سائل کو اس کی حماقت کی سزا کے طور پر دیا جا رہا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فتویٰ: قاری صاحب نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا جو فتویٰ درج فرمایا‘ وہ یوں ہے: ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی نے آکر کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دی ہیں۔ توآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’تین طلاقوں نے تیری بیوی کو تجھ پر حرام کر دیا ہے‘ باقی ۹۹۷طلاقیں اپنی دوسری بیویوں میں تقسیم کر دے۔‘‘ (منہاج ص۳۱۰ بحوالہ بیہقی ج۷ ص۳۳۵ طبع بیروت) قطع نظر اس بات کے کہ ایسی روایات کی اسنادی حیثیت انتہائی کمزور ہوتی ہے (کیوں کہ یہ تیسرے اور چوتھے درجہ کی کتب سے لی گئی ہیں) اگر اس واقعہ کو درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سائل انتہائی جاہل اور بے ہودہ انسان تھا۔ جاہل اس لیے کہ اسے اتنا علم نہ تھا کہ طلاقیں زیادہ سے زیادہ تین ہی ہیں اور بے ہودہ اس لیے کہ اپنی اس جہالت اور حماقت کو اپنے تک محدود نہ رکھا‘ بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی جا بتایا۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو جواب دیا‘ وہ بھی ’’جیسی روح ویسے فرشتے‘‘ کے مصداق ہے۔ ذرا سوچیے کہ واقعی سائل نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے مطابق ۹۹۷ طلاقیں اپنی دوسری
Flag Counter