Maktaba Wahhabi

103 - 90
نے تین طلاق دے دیں۔ اب حلالہ کی ضرورت پیش آئی تو تاجر اور اس کے داماد (لڑکی کو طلاقیں دینے والے خاوند) نے حلالہ کے لیے تاجر کے ایک بااعتماد نوکر کا انتخاب کیا اور نکاح کر دیا۔ لڑکی کی غیرت اس گھنائونے فعل کو برداشت نہ کر سکی، جب رات اکٹھے ہوئے تو اس نے اپنے ملازم کا حوصلہ بڑھایا اور اس بات پر قائم کر دیا کہ اب وہ طلاق نہ دے گا۔ جب صبح ہوئی تو وہی شخص جو کل تک ان کا بااعتماد نوکر تھا، ان کا داماد اور شریک بن کر سامنے آگیا اور اس کی بیوی اس کی حمایت میں تھی۔ خاوند اور باپ کو بہر حال یہ سب کچھ برداشت کرنا پڑا۔ اندریں صورت ہمارے خیال میں بیک وقت تین طلاق دینے والے شخص کے لیے کچھ نہ کچھ سزا ضرور تجویز کی جانی چاہئے۔ سزا کیا ہو؟ میرے خیال میں یک بارگی تین طلاق کی سزا کو ظہار کی سزا یا کفارہ پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ دور جاہلیت میں ظہار جدائی کی تمام اقسام میں سے سخت تر قسم سمجھی جاتی تھی۔ پھر جب عہد نبوی صلی اللہ وسلم میں ایسا ایک واقعہ رونما ہوا اور میاں بیوی دونوں کی جان پر بن گئی اور وہ عورت شکوہ کناں آپ صلی اللہ وسلم کے پاس آکر اس مصیبت سے نجات کی راہ پانے کے لیے آپ صلی اللہ وسلم سے جھگڑا کرنے لگی تو اﷲ تعالیٰ نے زوجین کی مشکلات کا حل فرما دیا۔ جو یہ تھا کہ اپنی بیوی کو ماں کہہ دینے سے چونکہ فی الحقیقت وہ ماں نہیں بن جاتی لہٰذا اس بات کو اﷲ تعالیٰ نے ’’مُنْکرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُوْرًا‘‘ (ناپسند اور انہونی بات)قرار دے کر اس کا کفارہ مقرر فرما دیا ۔ اﷲ تعالیٰ کے اس ارشاد سے ضمناً یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ فی نفسہ الفاظ میں کچھ تاثیر نہیں ہوتی، بلکہ الفاظ میں تاثیر شرعی احکام سے ہی پیدا ہوتی ہے‘ اور شرعی احکام سے ہی یہ تاثیر خارج یا ختم بھی ہوجاتی ہے۔ لہٰذا طلاق کے لفظ یا تین طلاق کے الفاط کی تاثیر کا پتہ چلانے کے لیے شرعی حکم یا سنت نبوی صلی اللہ وسلم کا لحاظ رکھنا پڑے گا۔ فی نفسہ تین طلاق کے الفاظ بندوق کی گولی نہیں ہوتے! ہاں تو بات یہ چل رہی تھی کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک ’’منکر‘‘ اور ’’زُور‘‘ بات کا کفارہ مقرر کر
Flag Counter