یہاںتک معاملہ انتہائی سنگین دکھائی دیتاہے ،مگر اگلے جملے میں پنہاں اللہ تعالیٰ کی وسعتِ رحمت نے اس سنگینی کو دھوڈالا،فرمایا:(وأنا أغفرالذنوب جمیعا )یعنی:میں تمام گناہوں کو بخش دیتاہوں،وہ کتنےہی بڑےہوںاور کتنے ہی زیادہ ہوں۔ لیکن اس کیلئے تمہیں ایک عمل کرناہوگا،فرمایا:(فاستغفرونی)یعنی:مجھ سے استغفار کرتے رہو،اس عملِ استغفارکا نتیجہ یہ نکلے گا (أغفرلکم)یعنی:میں تمہارے تمام گناہ بخش دونگا۔ استغفار کی صورتیں استغفار کرنے کی دوصورتیں ہیں: یاتو زبان سے ایسے کلمات کہے جو استغفار کوموجب ہیں،مثلاً: اللھم اغفرلی،یا استغفراللہ الذی لاالٰہ إلاھو وأتوب إلیہ. یاپھر ایسا عمل کرے جو گناہوں کو جھاڑ ڈالتاہے،مثلاً:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (من قال سبحان اللہ وبحمدہ مائۃ مرۃ غفرت خطایاہ ولو کانت مثل زبدالبحر)[1] یعنی:جوشخص سوبار سبحان اللہ وبحمدہ کہہ دے،اس کے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں،خواہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر کیوں نہ ہو۔ |
Book Name | حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 144 |
Introduction | یہ کتاب دراصل ایک حدیث کی تشریح پر مشتمل ہے ، یہ حدیث ، حدیث قدسی ہے اور چونکہ اس کے راوی سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں اسی لئے اسی نام سے ذکر کی گئی ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دس فرامین جو بندے کے لئے ہیں ان کا بیان ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:شامی رواۃ کی یہ سب سے عمدہ حدیث ہے۔ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابوادریس الخولانی جب بھی اس حدیث کو روایت کرتے تو بڑے ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر بیٹھ جاتے،یہ حدیث عظیم المعانی اور کثیر المقاصد ہے،اس میں بہت سے اعتقادی،عملی اور تربوی مسائل کا خزانہ موجودہے۔ یقیناً اس حدیث کی شرح میں محترم شیخ صاحب نے بڑا علمی مواد جمع کردیا ہے۔ |