Maktaba Wahhabi

80 - 90
فذهب قوم الٰی ان الرجل اذا طلق امراته ثلٰثاً معا وقعت علیها واحدة۔ (بحوالہ مقالات ص۲۱) ایک قوم اس طرف گئی ہے کہ اگر آدمی اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے تو ایک ہی واقع ہوتی ہے۔ گویا آپ کے نزدیک اختلاف کرنے والے چند حضرات نہیں‘ بلکہ ایک قوم ہے۔ لہٰذا اجماع کا دعویٰ غلط ہے۔ (۴) امام فخر الدین رازی شافعی اشعری رحمۃ اللہ علیہ (م۶۰۶ھ): آپ اپنی تفسیر کبیر ج۲ ص۲۴۸ پر فرماتے ہیں: هذا اختیار کثیر من علماء الدین ان لو طلقها اثنین اوثلاثا لا یقع الا واحدة وهذا القول اقرب الی القیاس لان النهی عن الشی یدل علی اشتمال المنهی عنه علی مفسدة راجحة والقول بالوقوع فی ادخال تلك المفسدة فی الوجود وانه غیر جائز فوجب ان یحکم بعدم الوقوع(بحوالہ مقالات ص۲۵) یعنی بہت سے علمائے دین کا پسندیدہ مسلک یہ ہے کہ جو شخص بیک وقت دو یا تین طلاقیں دیتا ہے تو صرف ایک طلاق واقع ہوتی ہے۔ اور یہی قول قیاس کے سب سے زیادہ موافق ہے۔کیونکہ کسی چیز سے منع کرنا اس پر دلالت کرتا ہے کہ وہ چیز کسی بڑے مفسدہ اور خرابی پر مشتمل ہے اور وقوع طلاق کا قائل ہونا اس مفسدہ اورخرابی کو وجود میں لانے کا سبب ہے … اور یہ بات جائز نہیں، لہٰذا عدم وقوع کا حکم لگانا واجب ہے۔ (۵) امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ (م۷۲۸ھ): آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اگر کوئی شخص ایک طہر میں ایک کلمہ میں یا تین کلموں میں طلاق دے تو جمہور علماء کے نزدیک حرام ہے‘ لیکن ان کے واقع ہونے کا مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ تین
Flag Counter