اپنی عقل سے اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز واجب یاحرام نہیں کرسکتے؛ کیونکہ ہماری عقول کے پاس تحریم یا ایجاب کا کوئی اختیار نہیں،یہ سارااختیار اللہ رب العزت کے پاس ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ قصیدۂ نونیہ میں فرماتے ہیں: ماللعباد علیہ حق واجب ھو أوجب الأجر العظیم الشان کلا ولا عمل لدیہ ضائع إن کان بالإخلاص والإحسان یعنی:کوئی بندہ اس پر اپنا کوئی حق واجب نہیں کرسکتا،اس نے (بعض اعمال) کے اجر عظیم کو اپنے اوپر واجب کیاہے،کوئی نیکی اس کے ہاں ضائع نہیں ہوتی اگر وہ اخلاص اور متابعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر قائم ہو۔ اللہ تعالیٰ کیلئے مستعمل لفظ’’نفس‘‘ بمعنی ذات ہے (۶) حدیث میں اللہ تعالیٰ کی ذات کیلئے(نفس )کا لفظ استعمال ہوا ہے، (نفس) سے مراد ذات ہے،قرآن پاک میں بھی یہ لفظ بمعنی ذات وارد ہے، کما قال اللہ تعالیٰ:[وَيُحَذِّرُكُمُ اللہُ نَفْسَہٗ۰ۭ][1]لوگوں میںلفظ ذات زیادہ معروف ومستعمل ہے،جبکہ اصل عربی میں لفظ نفس ،افصح ہے۔ ظلم کی دوصورتیں اورظلم کااصل مدار (۷) اللہ تعالیٰ نے ہم انسانوں کے درمیان ہرقسم کاظلم حرام قرار دے دیا ہے، اس |
Book Name | حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 144 |
Introduction | یہ کتاب دراصل ایک حدیث کی تشریح پر مشتمل ہے ، یہ حدیث ، حدیث قدسی ہے اور چونکہ اس کے راوی سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں اسی لئے اسی نام سے ذکر کی گئی ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دس فرامین جو بندے کے لئے ہیں ان کا بیان ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:شامی رواۃ کی یہ سب سے عمدہ حدیث ہے۔ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابوادریس الخولانی جب بھی اس حدیث کو روایت کرتے تو بڑے ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر بیٹھ جاتے،یہ حدیث عظیم المعانی اور کثیر المقاصد ہے،اس میں بہت سے اعتقادی،عملی اور تربوی مسائل کا خزانہ موجودہے۔ یقیناً اس حدیث کی شرح میں محترم شیخ صاحب نے بڑا علمی مواد جمع کردیا ہے۔ |