جزاء وسزاء کے متعلق ایک اہم نکتہ دوسری خبر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام اعمال کی ہمیں جزاء یا سزا دینی ہے،یا تو دنیا میں یا آخرت میں ،یا دنیا اور آخرت دونوں جہانوںمیں، چنانچہ کافر کو اس کے نیک اعمال کی جزاء دنیا میں مل جائے گی ،جبکہ وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں شامل ہوجائے گا۔ اور مومن کو اس کے اعمالِ حسنہ کا بدلہ آخرت میں دیاجائے گا،نیز دنیا میں بھی دیا جاسکتا ہے،یہی معاملہ اس کے گناہوں کا ہے،جبکہ ایسے خوش نصیب مومن بھی ہوسکتے ہیں جنہیں ان کی برائیوں کی سزا دنیا کی بیماریوں اور تکلیفوں سے دے دی جائےاور ان کی آخرت کا معاملہ صاف کردیاجائے،جو کہ اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم ہے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے: (إذا أراد اللہ بعبدہ الخیر عجل لہ العقوبۃ فی الدنیا،وإذا أراد اللہ بعبدہ الشر أمسک عنہ بذنبہ ،حتی یوافیہ بہ یوم القیامۃ)[1] یعنی:جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا فیصلہ فرماتاہے تو اسے اس کے گناہوں کی سزا دنیا میں دے دیتاہے،اور جب کسی بندے کے ساتھ برائی کافیصلہ فرماتاہے تو اس کے گناہوں کی سزادنیا میں روک لیتاہے،پھرقیامت کے دن پوراپورابدلہ دیگا۔ |
Book Name | حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 144 |
Introduction | یہ کتاب دراصل ایک حدیث کی تشریح پر مشتمل ہے ، یہ حدیث ، حدیث قدسی ہے اور چونکہ اس کے راوی سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں اسی لئے اسی نام سے ذکر کی گئی ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دس فرامین جو بندے کے لئے ہیں ان کا بیان ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:شامی رواۃ کی یہ سب سے عمدہ حدیث ہے۔ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابوادریس الخولانی جب بھی اس حدیث کو روایت کرتے تو بڑے ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر بیٹھ جاتے،یہ حدیث عظیم المعانی اور کثیر المقاصد ہے،اس میں بہت سے اعتقادی،عملی اور تربوی مسائل کا خزانہ موجودہے۔ یقیناً اس حدیث کی شرح میں محترم شیخ صاحب نے بڑا علمی مواد جمع کردیا ہے۔ |