مابقیت الدنیا)[1] یعنی:مجھے دورانِ نماز جنت دکھائی گئی،میں نے اس میں سے ایک پھلوں کا خوشہ پکڑلیا(پھرچھوڑدیا)اوراگرمیں اسے لے کرآجاتا تو تم جب تک دنیاقائم ہے اسی خوشے میں سے کھاتے رہتے(اور وہ کبھی ختم نہ ہوتا) یہ الفاظ بخاری ومسلم میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے ہیں،جبکہ مسند احمد میں جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے یہ الفاظ بھی منقول ہیں: (لوأتیتکم بہ لأکل منہ من بین السماء والأرض،لاینقصونہ شیئا) یعنی:اگر میں وہ خوشہ لے آتا توآسمان وزمین کے درمیان موجود تمام مخلوق اس میں سے کھاتی رہتی اور(قیامت تک) کوئی کمی نہ کرپاتی۔ مشرک کی کم عقلی وبے قوفی جس پروردگار کے ایسے خزانے ہوں اور بذل وعطاء اور جودوسخاء کا یہ عالَم ہو،اس کے درکوچھوڑکر دوسروں کے در پہ دستک دینا اور ان سے اپنی حاجات کا سوال کرنا کتنی بڑی سفاہت وحماقت ہوگی؟ یہی وجہ ہے کہ ایک مشرک انسان فہم وفراست اور دلیل وحجت سے یکسر محروم |
Book Name | حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 144 |
Introduction | یہ کتاب دراصل ایک حدیث کی تشریح پر مشتمل ہے ، یہ حدیث ، حدیث قدسی ہے اور چونکہ اس کے راوی سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں اسی لئے اسی نام سے ذکر کی گئی ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دس فرامین جو بندے کے لئے ہیں ان کا بیان ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:شامی رواۃ کی یہ سب سے عمدہ حدیث ہے۔ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابوادریس الخولانی جب بھی اس حدیث کو روایت کرتے تو بڑے ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر بیٹھ جاتے،یہ حدیث عظیم المعانی اور کثیر المقاصد ہے،اس میں بہت سے اعتقادی،عملی اور تربوی مسائل کا خزانہ موجودہے۔ یقیناً اس حدیث کی شرح میں محترم شیخ صاحب نے بڑا علمی مواد جمع کردیا ہے۔ |