یعنی:تم مظلوم کی بددعاسے بچو؛کیونکہ مظلوم کی بددعا اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔ یہ تمام نصوص ہمیں کسی بھی نوعیت کے ظلم کے ارتکاب سے روکتے ہیں، حتی کہ اپنی جان تک پر ظلم روانہیں ہے،توپھر ان نصوص کا تقاضا یہی ہے کہ انسان کی زندگی عدل واعتدال کے ساتھ بسرہو،یعنی اپنے نفس پر ظلم نہ کرے اور دوسروں پر بھی ظلم کرنے سے باز رہے۔ معاشرتی ظلم کی بعض صورتیں کچھ لوگ اس تعلق سے عدل واعتدال کا منہج اپنانے سے قاصر رہتے ہیں، مثلاً:والدین کے حقوق تو بحسن وخوبی ادا کرلیتے ہیں ،مگر بیوی کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی بلکہ ظلم وتعدی برتتے رہتے ہیں،کچھ کا عمل اس سے بالکل برعکس ہوتاہے،جبکہ شرعی مطلوب یہی ہے کہ ہرایک سے تعلق عدل کے تقاضوں کو پوراکرتے ہوئے قائم رکھاجائے۔ صحیح بخاری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے: ’’إِن لربک علیک حقا وإن لنفسک علیک حقا ولأھلک علیک حقا فأعط کل ذی حق حقہ‘‘[1] |
Book Name | حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 144 |
Introduction | یہ کتاب دراصل ایک حدیث کی تشریح پر مشتمل ہے ، یہ حدیث ، حدیث قدسی ہے اور چونکہ اس کے راوی سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں اسی لئے اسی نام سے ذکر کی گئی ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دس فرامین جو بندے کے لئے ہیں ان کا بیان ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:شامی رواۃ کی یہ سب سے عمدہ حدیث ہے۔ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابوادریس الخولانی جب بھی اس حدیث کو روایت کرتے تو بڑے ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر بیٹھ جاتے،یہ حدیث عظیم المعانی اور کثیر المقاصد ہے،اس میں بہت سے اعتقادی،عملی اور تربوی مسائل کا خزانہ موجودہے۔ یقیناً اس حدیث کی شرح میں محترم شیخ صاحب نے بڑا علمی مواد جمع کردیا ہے۔ |