Maktaba Wahhabi

74 - 90
کر دی ہے۔ اجماع کے معنی: پھر فرماتے ہیں: ’’اس کے بعد اس پر اجماع ہو گیا۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں رہا، سوائے چند حضرات کے جن میں شیعہ حضرات بھی شامل ہیں۔‘‘ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قاری صاحب یا تو اجماع کے معنی نہیں سمجھتے یا پھر تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں۔ ورنہ ایک ہی فقرہ میں متضاد باتیں نہ لکھ جاتے۔ اجماع کا معنی یہ ہے کہ اگر کل آدمی دس ہیں اور وہ سب کے سب ایک بات پر متفق ہو جاتے ہیں تو یہ اجماع ہے اور اگر دس آدمیوں میں سے ایک نے بھی اختلاف رائے کیا تو یہ اجماع نہ رہا۔ باقی نو آدمیوں کو جمہوریا اکثریت کی بات تو کہا جا سکتا ہے‘ اجماع نہیں کہا جا سکتا اور حجت شرعیہ اگر ہے تو اجماع ہے نہ کہ جمہور۔ اب قاری صاحب کا کمال یہ ہے کہ ایک طرف تو فرما رہے ہیں کہ ’’اس پر اجماع ہو گیا‘‘ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ ’’ماسوائے چند حضرات کے جن میں شیعہ حضرات بھی شامل ہیں‘‘ گویا قاری صاحب کے ’’چند حضرات‘‘ بھی اتنے زیادہ ہیں کہ ان میں سارے شیعہ، سارے اہل حدیث اور سارے ظاہری سما جاتے ہیں، پھر بھی وہ ’’چند‘‘ ہی رہتے ہیں۔ اب اتنے زیادہ ’’چند‘‘ کے باوجود باقی اصحاب پر قاری صاحب ’’اجماع‘‘ کا اطلاق فرمائیں تو یہ ان کا ہی کمال سمجھنا چاہئے۔ پھر طرفہ تماشا یہ کہ ادھر قاری صاحب اجماع کا دعویٰ فرما رہے ہیں ‘ ادھر ان کے بقول صاحب جواہر یہ بھی فرما رہے ہیں کہ ’’یہ مسئلہ اجماعی اور ضروریات شیعہ میں سے ہے‘‘ (منہاج مذکور ۳۰۷) جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں۔ ان میں سے کسی کا بھی ’’دعوائے اجماع‘‘ حقیقت پر مبنی نہیں۔
Flag Counter