تعالیٰ وما علیہ خطیئتہ.[1] ترجمہ:ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مؤمن مرد یاعورت اپنی جان،مال اور اولاد کے تعلق سے آزمائشوں میں مبتلا رہتےہیں، حتی کہ اللہ تعالیٰ سے اس طرح جاملتے ہیں کہ ان کے ذمہ کوئی گناہ باقی نہیں بچاہوتا۔(اسے امام ترمذی نے روایت کیا اور حسن صحیح قرار دیا۔) سب سے بڑا وسیلۂ مغفرت:عقیدۂ توحید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:(اللہ تعالیٰ فرماتاہے) (یاابن آدم إنک لو أتیتنی بقراب الأرض خطایا، ثم لقیتنی لاتشرک بی شیئا لأتیتک بقرابھا مغفرۃ)[2] یعنی:اے آدم کے بیٹے!اگر تو زمین بھر گناہوںکےساتھ میری طرف آئے،پھر تومجھے اس طرح ملےکہ تونے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایاہو، تو میں زمین بھر مغفرت کے ساتھ تیری طرف آؤنگا۔ قیامت کے دن گناہوں کی بخشش کا بہت بڑا وسیلہ اورذریعہ،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ہے،یہ شفاعت صرف اہلِ توحید کو حاصل ہوگی،باقی پوری دنیا اس شرف سے |
Book Name | حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 144 |
Introduction | یہ کتاب دراصل ایک حدیث کی تشریح پر مشتمل ہے ، یہ حدیث ، حدیث قدسی ہے اور چونکہ اس کے راوی سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں اسی لئے اسی نام سے ذکر کی گئی ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دس فرامین جو بندے کے لئے ہیں ان کا بیان ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:شامی رواۃ کی یہ سب سے عمدہ حدیث ہے۔ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابوادریس الخولانی جب بھی اس حدیث کو روایت کرتے تو بڑے ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر بیٹھ جاتے،یہ حدیث عظیم المعانی اور کثیر المقاصد ہے،اس میں بہت سے اعتقادی،عملی اور تربوی مسائل کا خزانہ موجودہے۔ یقیناً اس حدیث کی شرح میں محترم شیخ صاحب نے بڑا علمی مواد جمع کردیا ہے۔ |