كَمَنْ مَّثَلُہٗ فِي الظُّلُمٰتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا۰ۭ ][1] یعنی:جوشخص مردہ ہو،پس ہم اسے زندہ کردیں اور اسے نور عطا فرمادیںجس کے ساتھ وہ لوگوں کے درمیان چلتاپھرتارہے،وہ اس شخص کی مانند ہوسکتا ہے جو اندھیروں میں ٹامکٹوئیاں مارتارہے،اورکبھی اندھیروں سے نکل نہ سکے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے صراطِ مستقیم کی ہدایت کو حیات اور نور قرار دیا ہے،اور عدمِ ہدایت کو موت اورظلمت کہاہے۔ رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا ہدایت کی دعاکرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ سے،ہدایت کی دعا کرتے رہنا ثابت ہوتا ہے، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں،بلکہ افضل الرسل اور سیدولدآدم ہیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کثرت والحاح سے ہدایت کی دعا فرمایا کرتے تھے تو ہمیں اس دعاکا کس قدراحتیاج ہے،اسی لئے حدیثِ زیربحث میں اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے:’’فاستھدونی أھدکم‘‘یعنی:پس تم مجھ سے ہدایت طلب کرو،میں تمہیں ہدایت دونگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا یوں ہے: ’’أللھم إنا نسئلک الھدی والتقی والعفاف والغنی‘‘[2] |
Book Name | حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 144 |
Introduction | یہ کتاب دراصل ایک حدیث کی تشریح پر مشتمل ہے ، یہ حدیث ، حدیث قدسی ہے اور چونکہ اس کے راوی سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں اسی لئے اسی نام سے ذکر کی گئی ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دس فرامین جو بندے کے لئے ہیں ان کا بیان ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:شامی رواۃ کی یہ سب سے عمدہ حدیث ہے۔ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابوادریس الخولانی جب بھی اس حدیث کو روایت کرتے تو بڑے ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر بیٹھ جاتے،یہ حدیث عظیم المعانی اور کثیر المقاصد ہے،اس میں بہت سے اعتقادی،عملی اور تربوی مسائل کا خزانہ موجودہے۔ یقیناً اس حدیث کی شرح میں محترم شیخ صاحب نے بڑا علمی مواد جمع کردیا ہے۔ |