Maktaba Wahhabi

96 - 90
الواقع اکثریت امام صاحب کے فتویٰ سے اتفاق رکھتی ہے۔ میں نے کثیر کا لفظ ’’بہت‘‘ یا ’’بہت سے‘‘ کے معنوں میں استعمال کیا ہے اور میرے خیال میں جس قدر نام میں نے ’’اجماع کی حقیقت‘‘ میں حنفی علماء کے گنوا دیئے ہیں‘ ان پر بھی ’’ایک کثیر طبقہ‘‘ کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہ علماء عام انسان نہیں‘ بلکہ ان کا اپنا بھی وسیع حلقہ اثر ہے۔ رہا فقہ مالکی کے مطابق فتویٰ دینے کا معاملہ تو علمائے احناف سفارش یہ کرتے ہیں کہ جس طرح احناف مفقود الخبر اور عدت ممتدۃ الطہر کے مسائل میں فقہ مالکیہ کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں‘ اسی طرح اگر وہ اس تطلیق ثلاثہ کے مسئلے میں بھی امام صاحب کی تقلید سے ہٹ کر کسی دوسرے مسلک کے مطابق فتویٰ دے دیں تو حنفی مذہب میں اتنا توسع موجود ہے۔ ایسا مشورہ دینے والے حضرات مندرجہ ذیل ہیں: مولانا اشرف علی صاحب تھانوی اور مولانا عبدالحی صاحب لکھنوی فرنگی محلی اس مسئلہ میں ترک تقلید امام اعظم کی رخصت دیتے ہیں‘ جیسا کہ مفقود الخبر اور عدت ممتدۃ الطہر کے مسائل میں احناف فقہ مالکیہ کے مطابق فتویٰ دینا جائز قرار دیتے ہیں۔ (مجموعہ فتاوی ص۳۳۷) (۱) مفتی اعظم مولانا محمد کفایت اﷲ دہلوی (۲) مولانا محمد عبدالحلیم قاسمی صدر علمائے احناف پاکستان (۳) مفتی حبیب المرسلین مدرسہ امینیہ دہلی (۴) مولانا محفوظ الرحمن صاحب قاسمی فاضل دیو بند (۵) پیر کرم شاہ صاحب ازہری (مدیر ماہنامہ ’’ضیائے حرم‘‘ بھیرہ ‘ رکن اسلامی نظریاتی کونسل اور رویت ہلال کمیٹی) نیز احمد نگر میںمنعقد شدہ سیمینار میں شرکت کرنے والے اکثر مقالہ نگار حضرات۔ البتہ قاری صاحب کی یہ بات درست ہے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بھی تین طلاق کو ایک قرار نہیں دیتے۔ میں دراصل کہنا یہ چاہتا تھا کہ جس طرح بعض مسائل میں احناف فقہ مالکیہ کے مطابق فتویٰ دینے کو درست کہتے ہیں اسی طرح بعض احناف اس مسئلہ میں بھی ایک طلاق شمار کرنے والے مسلک کی سفارش کرتے ہیں۔
Flag Counter