اب دیکھئے اگر عورت کو ایک دفعہ تین طلاق دے کر پھر انہیں تین ہی شمار کر لیا جائے تو بہتری یا رجوع کا کوئی موقع باقی رہ جاتا ہے؟ ’’لَعَلَّ اﷲَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا‘‘ کے الفاظ اس بات کے متقاضی ہیں کہ اگر طلاق دی جائے تو رجعی ہی ہونی چاہئے۔ عدت کا شمار بھی اسی لحاظ سے سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ چھٹی دلیل: ’فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَاَمْسِکُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْفَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ الاٰیة‘۔ (الطلاق: ۲) پھر جب مطلقہ عورتیں اپنی میعاد (یعنی انقضائے عدت) کو پہنچ جائیں تو انہیں یا تو ٹھیک طرح اپنی زوجیت میں رکھو یا اچھی طرح سے علیحدہ کردو۔ مندرجہ بالا تمام آیات سے واضح ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے طلاق کے بعد مرد کے حق رجوع کو بحال رکھا ہے اور دور جاہلیت کے لامحدود حق رجوع کو دوبار تک محدود کر دیا ہے۔ کتاب و سنت میں کوئی ایسی نص موجود نہیں جو مرد کے اس حق رجوع کو ساقط قرار دیتی ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص غصے میں آکر یا حماقت کی وجہ سے اکٹھی تین طلاقیں دے بیٹھے تو اولا یہ حق رجوع کہاں باقی رہا؟ ثانیاً یہ دیکھنا ہے کہ تب اس کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟ اس سلسلہ میں احادیث سے پوری رہنمائی مل جاتی ہے۔ |
Book Name | تین طلاق اور ان کا شرعی حل |
Writer | مولانا عبد الرحمٰن کیلانی |
Publisher | مکتبۃ السلام، لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 90 |
Introduction | یہ کتابچہ دراصل ماہنامہ محدث میں شائع ہونے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں ادارہ منہاج سے وابسہ قاری عبدالحفیظ سے اعتراضات و شبہات کا جواب دیا گیا ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں طلاق کے حوالے سے تمام مسائل کو بالدلائل واضح کر دیا ہے جس پر کوئی عالم بھی قدغن نہیں لگا سکتا-جس میں رسول اللہﷺکے دور میں طلاق کی صورت،مجلس واحد میںتین طلاقوں کا حکم، بعد میں صحابہ کرام کا عمل اور حضرت عمر کے بارے میں بیان کیے جانے والے مختلف واقعات کی اصلیت کی نشاندہی اور مجلس واحد کی تین طلاقوں کے موثر ہونے کے دلائل کی وضاحت کرتے ہوئے قرآن وسنت کی روشنی میں ان کا جواب تحریر کیا گیا ہے-تطلیق ثلاثہ کے بارے میں پائے جانے والے چار گروہوں کا تذکرہ،انکار اور تسلیم کرنے والے علماء کے دلائل کا تذکرہ،تطلیق ثلاثہ سے متعلق ایک سوال کی وضاحت،مسائل میں باہمی اختلاف کی شدت کی وجہ تقلید کو بھی بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے- |