Maktaba Wahhabi

45 - 90
اب دیکھئے اگر عورت کو ایک دفعہ تین طلاق دے کر پھر انہیں تین ہی شمار کر لیا جائے تو بہتری یا رجوع کا کوئی موقع باقی رہ جاتا ہے؟ ’’لَعَلَّ اﷲَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا‘‘ کے الفاظ اس بات کے متقاضی ہیں کہ اگر طلاق دی جائے تو رجعی ہی ہونی چاہئے۔ عدت کا شمار بھی اسی لحاظ سے سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ چھٹی دلیل: ’فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَاَمْسِکُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْفَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ الاٰیة‘۔ (الطلاق: ۲) پھر جب مطلقہ عورتیں اپنی میعاد (یعنی انقضائے عدت) کو پہنچ جائیں تو انہیں یا تو ٹھیک طرح اپنی زوجیت میں رکھو یا اچھی طرح سے علیحدہ کردو۔ مندرجہ بالا تمام آیات سے واضح ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے طلاق کے بعد مرد کے حق رجوع کو بحال رکھا ہے اور دور جاہلیت کے لامحدود حق رجوع کو دوبار تک محدود کر دیا ہے۔ کتاب و سنت میں کوئی ایسی نص موجود نہیں جو مرد کے اس حق رجوع کو ساقط قرار دیتی ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص غصے میں آکر یا حماقت کی وجہ سے اکٹھی تین طلاقیں دے بیٹھے تو اولا یہ حق رجوع کہاں باقی رہا؟ ثانیاً یہ دیکھنا ہے کہ تب اس کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟ اس سلسلہ میں احادیث سے پوری رہنمائی مل جاتی ہے۔
Flag Counter