Maktaba Wahhabi

65 - 90
(۳) عویمر رضی اللہ عنہ عجلانی کی تین طلاق کے نفاذ والی روایت بجائے خود ضعیف ہے‘ جسے بنیاد بنایا جا رہا ہے۔ اس لحاظ سے یہ بنائے فاسد علی الفاسد والی بات ہے۔ (۴) تطلیق ثلاثہ کے قائلین اور مخالفین سب اس بات پر متفق ہیں کہ عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی کی تفریق طلاق کی بنا پر نہیں، بلکہ لعان کی بنا پر ہوئی تھی (اور یہ بحث پہلے گزر چکی ہے) لعان کے بعد جیسے حضرت عویمر رضی اللہ عنہ کا تین طلاقیں دینا عبث فعل ہے۔ جس چیز کے نفاذ یا عدم نفاذ کا کچھ اثر ہی نہ ہو سکے‘ اس سے احتجاج کیسے درست ہو گا؟ (۵) حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے استاد امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ایسی تمام روایات کو جن میں ایک مجلس کی تین طلاق کو تین قرار دینے یا ان کے نفاذ کا ذکر ہو‘ ’’باتفاق اہل علم جھوٹی‘‘ قرار دیتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔ پھر اس خاص مسئلہ میں استاد اور شاگرد کا اختلاف بھی کہیں مذکور نہیں۔ اس صورت حال میں حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے یہ روایت کیونکر درست قرار دی جا سکتی ہے؟ ساتویں حدیث ‘عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے دادا کا قصہ: یہ مصنف عبدالرزاق کی ایک روایت ہے: ’’عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے دادا نے اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دیں اس کے بعد میرا باپ رسول اﷲ صلی اللہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا ’’تیرا باپ اللہ سے ڈرا نہیں۔ تین طلاقیں اس کا حق تھا‘ باقی سب کچھ زیادتی ہے۔ اﷲ چاہے تو سزا دے اور چاہے تو معاف کر دے۔‘‘ یہ روایت تین طلاقوں کے واقع ہونے پر نص تو ہے مگر یہ روایت نہ درایتہ درست ہے نہ روایتہ۔ درایتہ اس لیے کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ان بارہ سرداروں میں سے ہیں جنہوں نے عقبہ ثانیہ میں رسول اﷲ صلی اللہ وسلم کی بیعت کی تھی۔ یہ بات بھی معلوم کرنا مشکل ہے کہ جب آپ صلی اللہ وسلم مبعوث ہوئے‘ اس وقت عبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ عنہ کے دادا زندہ بھی تھے یا نہیں؟ ان کا اسلام ثابت کرنا تو دور کی بات ہے اور روایۃً اس لیے غلط اور
Flag Counter