Maktaba Wahhabi

79 - 90
بتہ یا مغلظ ہونے میں تو کسی کو شک ہو ہی نہیں سکتا، رہا ایک مجلس کی تین طلاق کا مسئلہ تو اگر اختلاف ہے تو صرف اسی میں ہے۔مؤطا کی پوری عبارت یوں ہے کہ: ’’طلاق بتہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک ایک ہی طلاق پڑے گی‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک تین پڑیں گی۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مذہب ہے‘ سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور اہل کوفہ کے نزدیک جو نیت ہو گی وہی واقع ہو گی‘ مگر بائن پڑے گی۔ شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک رجعی ہو گی‘ مروان بن الحکم حاکم مدینہ طلاق بتہ میں تین طلاق کا حکم کرتے تھے۔ ‘‘ (مؤطا ایضاً) مؤطا امام مالک کی اس روایت سے واضح ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ذاتی طور پر ایک مجلس کی تین طلاق کے ایک ہی واقع ہونے کے قائل تھے۔ اور جو قانون آپ رضی اللہ عنہ نے نافذ کیا‘وہ غیر محتاط لوگوں کو سزا کے طور پر نافذ کیا تھا۔ (۲) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ (م۲۵۶ھ): امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ‘ اپنی صحیح میں ایک باب کا عنوان تجویز فرماتے ہیں ’’باب من اجاز طلاق الثلاث‘‘ اس عنوان سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک صراحتاً دوسرے کنایتاً ‘ صراحتاً یہ کہ امام بخاری کے نزدیک یہ مسئلہ اجماعی نہیں‘ بلکہ اختلافی ہے۔ اور کنایۃً یہ کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اپنا رخ بھی مزعومہ اجماع کی طرف نہیں ہے، ورنہ وہ ایسا عنوان تجویز ہی نہ فرماتے۔ اس باب میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ صرف دو واقعات پر مشتمل تین احادیث لائے ہیں۔ ایک واقعہ عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ سے متعلق ہے اور دوسرا رفاعہ قرظی سے متعلق۔ گویا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہی تین احادیث ایسی ہیں‘ جن سے قائلین تطلیق ثلاثہ استدلال فرما سکتے ہیں اور ان پر ہم پہلے بھرپور تبصرہ کر چکے ہیں۔ (۳) امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے ہم عصر اور ممتاز حنفی عالم اپنی تالیف ’’معانی الآثار‘‘ ج۲ص۲۲ پر فرماتے ہیں کہ:
Flag Counter