Maktaba Wahhabi

50 - 90
دعویٰ قبول کرنا ممکن نہ رہا۔ لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ظاہری الفاظ اور تکرار کو ہی اصل بنیاد قرار دے کر تین طلاقوں کو نافذ کر دیا۔‘‘ (فتح الباری ج۹) قاری صاحب موصوف نے بھی اس ’’جواب‘‘ کو رسالہ مذکور کے ص ۳۰۷ پر ایک دوسرے عنوان کے تحت پیش کیا ہے اور مولانا مودودی بھی اس تاویل کو پسند فرماتے ہیں۔ (تفہیم القرآن ایضاً) یہ جواب اس لیے غلط ہے کہ شرعی فیصلے تو ہمیشہ ظاہر پر ہی ہوا کرتے ہیں۔ دور نبوی صلی اللہ وسلم میں یہی دستور تھا‘ خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمین کے دور میں بھی یہی دستور تھا اور آج کی عدالتوں میں بھی یہی دستور ہے۔ (باطن یا نیت کے مطابق فیصلے کرنا اﷲ تعالیٰ کا کام ہے۔ بندوں کا نہیں) اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ظاہر پر فیصلہ کا مدار رکھا تو یہ اصولاً کوئی نیا کام نہیں تھا۔ حالانکہ وہ خود اعتراف فرما رہے ہیں کہ انہوں نے کچھ نیا کام کیا تھا جو دور نبوی صلی اللہ وسلم اور صدیقی کے تعامل کے برعکس تھا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تین طلاقوں کو ایک بنانے کا حکم مستقل قائم بالذات تھا۔ بالعموم ایسے معاملات میں لوگوں کی نیتوں کو ٹٹولا نہیں جاتا تھا۔ (پانچواں اعتراض) یہ حدیث غیر مشہور ہے: کہا جاتا ہے ’’معاملہ اس قدر اہم ہو اور روایت صرف اکیلے ابن عباسؓ ہی کریں ‘ یہ بات باعث تعجب ہے۔‘‘ یہ اعتراض ابن رشد قرطبی نے اٹھایا پھر خود ہی یہ کہہ کر اس کی تردید کردی کہ محض اس وجہ سے کسی حکم کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ امام محمد بن اسماعیل یمنی صنعانی شارح بلوغ المرام نے اپنی تالیف سبل السلام (ج۲ ص۱۱۴) پر اس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے‘ کہ ’’کتنے ہی ایسے مسائل ہیں جو صرف ایک راوی کی روایت ہونے کے باوجود قبول کر لیے گئے… تو پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کو ‘ جو حبرالامۃ ہیں‘ کیوں قبول نہیں کیا جا سکتا؟‘‘
Flag Counter