ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : آپ علیہ السلام کے اس فرمان کے مطابق کہ ’’ایمان کی نشانی انصار سے محبت ہے اور نفاق کی علامت انصار سے بغض ہے۔‘‘ جو شخص ابتدائی شروع اسلام میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت کے واقعات سے واقف ہو جائے اور وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت بھی کرتا ہو تو وہ ان انصار صحابہ سے بھی قطعی طور پر محبت کرے گا؛ اور ان حضرات کے لیے اس کے دل میں موجودان کی یہ محبت اس کے ایمان کی علامت ہو گی؛ اور جس نے ان سے بغض رکھا اور اس کے دل میں ایمان نہ ہو گا جو اللہ تعالیٰ نے اس پر لانا واجب کیا ہے ۔اور یہ محبت ہر خاص و عام انصاری سے ہو گی۔ علامہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے الاحکام میں فرمایاہے : ’’ انصار سے محبت رکھنا ان کی وہ خاص فضیلت ہے جو ان کے علاوہ کسی دوسری جماعت یا لوگوں کو نہیں مل سکتی اور نہ ہی اس فضیلت کو ان میں سے بعض کو چھوڑ کر بقیہ انصار کے لیے محدود کیا جا سکتا ہے۔‘‘ ۲۔ ان کے بغض سے بری ہونا؛ جیسا کہ اس بارے میں احادیث گزرچکی ہیں ۔ حتی کہ اہل علم حضرات نے ان سے بغض رکھنے کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے۔ ’’الزواجر‘‘ میں ابن الہیثمی ارشاد فرماتے ہیں : ’’چار سو چونسٹھواں اور پینسٹھواں کبیرہ گناہ یہ ہے کہ انصار سے بغض رکھنا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کو بھی برا بھلا کہنا۔‘‘ امام بخاری نے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ایمان کی علامتوں میں سے ایک علامت انصار سے بغض رکھنا ہے، اور نفاق کی علامتوں میں سے ایک علامت انصار سے بغض رکھنا ہے۔‘‘ اور شیخین (بخاری و مسلم) نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے بارے میں ارشاد فرمایا: |