Maktaba Wahhabi

63 - 158
کی طرف جو لوگ (مہاجرین) ہجرت کر کے آئے ان سے یہ لوگ (انصار) محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو دیا جائے اس سے یہ لوگ اپنے دلوں میں کوئی رشک نہیں پاتے۔‘‘انسانی تاریخ نے آج تک ایسا ہمہ گیر واقعہ نہیں دیکھا جیسا انصار کا مہاجرین کے استقبال کا واقعہ ہے، ایسی پاکیزہ اور قابل قدر محبت کے ساتھ، ایسی فیاضی اور سخاوت کے ساتھ، ایسی محبوب اور پسندیدہ ہمہ گیری کے ساتھ، پناہ دینے اور بوجھ اٹھانے میں ایسی مسابقت کے ساتھ، اتنا شاندار استقبال!! اور ان (مہاجرین) کو جو دیا جائے اس سے یہ (انصار) لوگ اپنے دلوں میں کوئی رشک نہیں پاتے۔ یعنی مہاجرین کو بعض مواقع پر بافضیلت مقام و مرتبہ اور مال حاصل ہوا، جیسا کہ پچھلے باب میں ’’فے‘‘ کی حدیث گزری جس پر ان کا جھگڑا ہوا تھا تو ان باتوں کی بنا پر انصار اپنے دلوں میں کوئی رشک یعنی (حسد) نہیں پاتے تھے۔ ﴿ وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ ﴾’’اور وہ لوگ (انصار) انہیں (مہاجرین) کو اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں سخت ضرورت ہی کیوں نہ ہو ‘‘ ۔ باوجود اپنی ضرورت کے کسی کو اپنی ذات پر ترجیح دینا اور ایثار کرنا بلاشبہ ایک بیش قیمت اور بلند صفت ہے اور انصار اس صفت میں کمال کو ایسے طریقے سے پہنچے کہ انسانیت اس کی نظیر دیکھنے سے قاصر ہے اور وہ ہمیشہ اور ہر دفعہ ایسا ہی کرتے تھے کہ ان کا یہ طریقہ بالکل خارق للعادۃ اور بے مثال و بے نظیر تھا۔ ﴿ وَّمَنْ یُّوقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾’’اور جو شخص اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا جائے تو بلاشبہ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ لہٰذا یہ بخل جو کہ طبیعت کا بخل ہے، ہر خیر سیروک دینے والا ہے، کیونکہ خیر تو ہر صورت میں خرچ کرنے کا نام ہے، مال کا خرچ کرنا، محبت و الفت کا خرچ (یعنی نچھاور) کرنا، محنت و کوشش کا خرچ کرنا اور ضرورت کے وقت زندگی کا خرچ کرنا (یعنی اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا) اور ناممکن ہے کہ خیر کو کرنے والا کوئی انتہائی بخیل آدمی ہو جسے ہر وقت یہ فکر دامن گیر
Flag Counter