Maktaba Wahhabi

62 - 158
کرتے ہیں اور جو کچھ ان کو ملا ہے اس سے اپنے دل میں کچھ خواہش (اور خلش) نہیں پاتے اور ان کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہی ہو اور جو شخص حرص نفسی سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ مراد پانے والے ہیں ۔‘‘ اللہ کی قسم کھا کر کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایسی صفات ہیں کہ ان کا لوگوں میں پایا جانا انتہائی مشکل ہے اور اس سے بھی زیادہ مشکل ان صفات کا کسی فرد یا جماعت میں جمع ہونا ہے۔ سید قطب رحمہ اللہ ’’ظلال القرآن‘‘ میں اس آیت کریمہ کی تعلیق میں فرماتے ہیں : ’’یہ آیت کریمہ انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایسی روشن اور سچی تصویر ہے جو ان کی اہم ترین ممتاز صفات کو عیاں کرتی ہے اور صحابہ کرام کی یہ جماعت کہ جس نے ان صفات میں یکتائے روزگار ہو کر آفاق کی بلندیوں کو چھو لیا اور اگر یہ حضرات ان صفات کو حقیقت کا روپ نہیں دیتے تو لوگ ان صفات کو فقط خواب و خیال ہی گمان کرتے اور حقیقت کی دنیا سے دور کی اقدار سمجھتے: ﴿وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤا الدَّارَ وَالْاِِیْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ……… ’’اور وہ لوگ جنہوں نے قرار پکڑا … بنا رکھا دار الاسلام (یعنی مدینہ) اور ایمان کو ان مہاجرین (کے یہاں آنے) سے پہلے) یعنی دار الہجرت کو، بلاشبہ انصار نے مہاجرین سے قبل اس کو اپنا مسکن بنایا ہوا تھا؛اوریہاں پر اہل ایمان کو ٹھکانہ دیاتھا؛ گویا کہ اصل ایمان ہی ان کا مسکن اور ٹھکانہ ہے، دراصل یہ اللہ تعالیٰ کی تعبیر ہے جس کے ذریعے ایمان کے بارے میں انصار کے موقف کو بہت قریب تے تصور اور سمجھا جا سکتا ہے۔ دراصل ایمان ان کا وہ ٹھکانہ، مسکن اور منزل تھی جس میں ان کے دل سکون پذیر ہوتے اور ان کی روحیں قرار پاتیں ، اور یہ لوگ اس میں پناہ لے کر اطمینان حاصل کرتے تھے، جیسا کہ آدمی گھر لوٹ کر اس میں اطمینان حاصل کرتا ہے۔ ﴿ یُحِبُّونَ مَنْ ہَاجَرَ اِِلَیْہِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّا اُوْتُوا…﴾ ’’ان
Flag Counter