Maktaba Wahhabi

139 - 158
میں کوئی نوایجاد امر پیش آئے جس کے کرنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنا ہو تو آپ اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ کیا اس فعل کا کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام سے ثابت ہے؟ پھر ان کے زمانے میں کیا اس فعل کو کرنے کا سبب اور موجب برقرار تھا؟ کیا ان کے زمانے میں اس فعل کو کرنے سے کوئی مانع موجود تھا؟ پس اگر اس فعل کو نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا نہ ان کے صحابہ میں سے کسی نے کیا؛حالانکہ اس فعل کا موجب موجود تھا اور اس کو کرنے سے کوئی مانع بھی موجود نہیں تھا تو پھر یہ بدعت، شرعی معنی میں بدعت ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجیے کہ اگر کوئی شخص اذان میں لفظ (اللہ اکبر) کے آگے (و اعلیٰ) کی زیادتی کر دے اور یوں کہے کہ اس عمل سے میرا مقصد صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور بزرگی بیان کرنے میں اضافہ کرنا ہے۔توہم کہیں گے کہ: یہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا جبکہ اس کا موجب برقرار تھا؛ اور وہ موجب ہے: اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور بزرگی کا بیان کرنا۔ اور اس کا کوئی مانع بھی نہیں ۔ اس بات سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ یہ کام بدعت اور گمراہی ہے۔ اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ چند لوگوں کو چاشت کی نفل نماز باجماعت پڑھنے کی عادت ہو جائے اور وہ یوں کہیں کہ ہمارا مقصد ایک دوسرے کو چاشت کی نماز پڑھنے پر ابھارنا تھا اور اس کی رغبت دلانا تھا تو یہاں بھی ہم ایسے ہی کہیں گے کہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے ساتھ چاشت کی نماز باجماعت ایسے کبھی نہیں پڑھی کہ باجماعت پڑھنے کی عادت ہو گئی۔ باوجود اس کے کہ اس کا سبب ایک دوسرے کو نماز چاشت کی سنت کی پابندی پر ابھارنا؛ برقرار ہے اور اس عمل سے کوئی مانع بھی موجود نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں اس واقعے سے یہ بات معلوم ہوئی کہ چاشت کی باجماعت نماز کی عادت بدعت ہے اور اس بدعت کو اضافی بدعت کہیں گے، تاکہ اس کے رمیان اور اصلی بدعت کے درمیان فرق کیا جا سکے جو کہ عبادات میں سے وہ مل ہے جس کی شرع میں کوئی اصل موجود نہ ہو۔
Flag Counter