Maktaba Wahhabi

138 - 158
کہیں امت پر اس کی جماعت فرض نہ ہو جائے۔ پھر لوگ اس نماز کو الگ الگ اور متفرق جماعتوں میں پڑھنے لگے۔ حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں لوگوں کو ایک امام کی اقتدا پرجمع کر لیا۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں اس نماز کوباجماعت ادا کیا تھا۔ لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سنت کو زندہ کیا اور ایسی چیز کو رائج کیا جو ایسے سبب کی بنا پر منقطع ہو چکی تھی جو اب ختم ہو چکاہے۔ اور وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کااندیشہ تھا کہ کہیں اس کی جماعت لوگوں پر فرض نہ ہو جائے۔ لہٰذا ان کا یہ فعل لغوی معنی میں بدعت شمار ہو گا نہ کہ اصطلاحی معنی میں ۔ کیونکہ اس صورت میں شرعی معنی میں بدعت حرام اور ناجائز ہو گی جو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے اللہ تعالیٰ کی حدود کے پاسدار اور محافظ صحابی کے لیے کسی صورت بھی ممکن نہیں کہ وہ ایسی بدعت نکالیں حالانکہ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بدعات پر تحذیر و ترہیب کے متعلق بھی بخوبی علم تھا۔ اور اگر بدعت کو شرعی معنی میں لیا جائے تو کسی بھی مشروع حکم کا سبب اور ذریعہ بننے والے وسائل اس بدعت شرعی میں شمار نہ ہوں گے مثلاً مدارس کی تعمیر اور کتب کی طباعت وغیرہ کیونکہ وسائل بھی مقاصد کے حکم میں ہوتے ہیں او مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے وسائل احوال اور مواقع کے مناسبت سے برتے رہتے ہیں اورکسی بھی شرعی مقصد تک پہنچانے والے وسیلے کی ایجاد کرنے والا اس حدیث مبارکہ کے معنی کے تحت آ جاتا ہے: ’’جس نے اسلام میں اچھی سنت طریقہ نکالا تو اس کے لیے قیامت تک اس کا اجر اور اس پر عمل کرنے والے کا اجر ہے۔‘‘ پھر جنہوں نے بدعت کو پانچ اقسام (بدعت واجبہ، وبدعت مندوبہ، بدعت محرمہ، بدعت مکروہہ، بدعت مباحہ) میں تقسیم کیا ہے ان کی بات تو ان سے بھی دور نکل جاتی ہے جنہوں نے بدعت کو دو اقسام حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کیا ہے۔ مگر یہ کہ انہوں نے بدعت کو لغوی معنی میں مراد لیا ہو نہ کہ شرعی معنی میں ۔ اور لغوی معنی میں بدعت اور شرعی معنی میں بدعت کے درمیان تمیز اور فرق کرنے میں یہ بات آپ کی معین و مددگار ہو گی کہ جب بھی آپ کو دین
Flag Counter