Maktaba Wahhabi

90 - 250
(3) قرآن مجید کی بہت ساری آیات اپنے آپ میں خود اتنی واضح ہیں کہ عربی آدمی کے لیے ان کی تشریح و تفسیر کی ضرورت ہی نہیں۔ مثلا سورۃ یوسف، سورۃ الکہف، سورۃ البقرۃ میں بنی اسرائیل کے بارے میں کئی آیات اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کی توحید کے اثبات میں نازل شدہ آیات۔ (4) احکام و مسائل اور فقہیات سے متعلقہ تمام آیات کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قولی، فعلی اور تقریری احادیث کے ذریعے سے وضاحت فرمائی۔ لیکن اس میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلوب یہ نہیں تھا کہ آپ ایک ایک آیت کی الگ الگ تشریح فرمائیں۔ یہ مفسر کی ذمہ داری ہے کہ احادیث الأحکام میں گہری بصیرت پیدا کرے اور جس جس آیت قرآنی کی جو حدیث تفسیر بنتی ہے وہاں اسے چسپاں کرے۔ (5) دیگر تمام آیات کی تفسیر کے بارے میں بھی آپ کا یہی اسلوب رہا، کہ قرآن مجید کے تمام محتویات و مضامین اور مقاصد و اہداف کو سامنے رکھتے ہوئے آپ نے مختلف مقامات پر اپنی احادیث مبارکہ کے ذریعے سے ان کی تفصیل و تشریح فرمائی۔ نیز اپنی پوری حیات طیّبہ کو قرآن مجید کے سانچے میں ڈھالا، یہاں تک کہ آپ قرآن مجسم بن گئے، اس معنیٰ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا خوب کہا: ’’ كان خُلُقُه القُرآنَ‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن مجید تھا۔ [1] ایک اہم اصول: جس طرح تفسیر القرآن بالقرآن کا ہ مطلب نہیں ہے کہ خود قرآن مجید اپنی کچھ آیات کو دوسری آیات کے لیے تفسیر قرار دے بلکہ یہ مفسر کا فرض ہے کہ وہ ایک موضوع پر مشتمل تمام آیات قرآنیہ کو دیکھے اور پھر اپنے اجتہاد سے بعض آیات کی تفسیر دوسری آیات کے ذریعے سے پیش کرے۔ بالکل اسی طرح تفسیر القرآن بالحدیث کا بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی حدیث کو کسی آیت کی تفسیر قرار دیں، بلکہ یہ مفسر کا فریضہ ہے کہ زیر تفسیر آیت
Flag Counter