Maktaba Wahhabi

157 - 250
(1) مرفوع حکمی وہ صحابی جو اسرائیلیات سے اخذ نہ کرتا ہو، اگر ایسی تفسیر پیش کرے جو عقل و اجتہاد سے معلوم نہ کی جا سکتی ہو، بلکہ محض نقل پر مبنی ہو، تو صحابی کا ایسا اثر ’’مرفوع حکمی‘‘ کہلاتا ہے۔ یعنی ایسے قول کو حکماً وہی مرتبہ حاصل ہو گا جو مرفوع حدیث کا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ جب وہ بات عقل و قیاس سے معلوم نہیں ہو سکتی تو اسے صحابی کی رائے نہیں کہا جا سکتا۔ مزید برآں وہ صحابی اہل کتاب سے بھی روایت نہیں کرتا، وگرنہ سمجھا جاتا کہ اس نے اسرائیلی روایت پیش کی ہے۔ اس کے بعد دو ہی صورتیں ممکن ہیں: ایک یہ کہ نعوذباللہ صحابی نے خود ساختہ بات کہی ہو، صحابی کے حق میں یہ محال ہے اور دوسری یہ کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو، یہ دوسرا احتمال ہی غالب ہے اور ماننا پڑے گا کہ یہ بات دراصل ارشادِ رسول ہے، جسے صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دیے بغیر نقل کر دیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ والحق أن ضابط ما يفسره الصحابي رضي اللّٰه عنه ان كان مما لا مجال للاجتهاد فيه، ولا منقولا عن لسان العرب، فحكمه الرفع، والا فلا‘‘ [1] ’’فی الحقیقت، اصول یہ ہے کہ اگر صحابی ایسی تفسیر پیش کرے جس میں اجتہاد کی گنجائش نہ ہو اور نہ ہی وہ لغت عرب سے منقول ہو تو اسے مرفوع روایت کا درجہ حاصل ہے، بصورت دیگر نہیں۔‘‘ درج ذیل حقائق کے بیان میں صحابہ کی تفسیر ’’مرفوع حکمی‘‘ ہو گی اور اسے مستند حدیث کا درجہ حاصل ہو گا۔ 1۔ مقادیرِ اشیاء، بدءالخلق 2۔ علاماتِ قیامت 3۔ احوالِ برزخ
Flag Counter