Maktaba Wahhabi

95 - 250
ورثے کو منقول اور معقول کے دو دائروں میں قطعی طور پر علیحدہ علیحدہ تقسیم کرنا کافی مشکل مرحلہ ہے۔ اس لیے کہ تفسیر بالمأثور میں بھی احادیث و آثار اور اقوال کا انتخاب بہرحال مفسر کی ذاتی رائے، شخصی رجحانات اور مطالعہ کی بنیاد پر ہوتا ہے، اسی طرح منقول اقوال میں سے کسی ایک کو ترجیح دینا، اسے اختیار کرنا، دیگر اقوال کو سرے سے ذکر ہی نہ کرنا یا مرجوح قرار دینا یہ سب مراحل بھی عقل و اجتہاد پر مبنی ہوتے ہیں۔ دوسری طرف تفسیر بالرئے میں مفسر کے سامنے دیگر آیات قرآنیہ اور احادیث و آثار کا ذخیرہ موجود ہوتا ہے، متعدد مقامات پر ان کا تذکرہ بھی کیا جاتا ہے، لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تفسیر بالرأئے بالخصوص تفسیر بالرأی المحمود میں آیات، احادیث اور اقوال صحابہ و تابعین سرے سے ذکر ہی نہیں کیے جاتے۔ اس اشکال کی شدت اور نوعیت کا اندازہ یہاں سے کیا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر مساعد الطیار جیسے قلمکار، کہنہ مشق پروفیسر اور ماہر علوم القرآن نے اس تقسیم کو ہی تسلیم کرنے سے تأمل کا اظہار کیا ہے۔ موصوف کے نزدیک ’’تفسیر بالمأثور‘‘ کے بالمقابل اصطلاح ’’تفسیر بالرأئے‘‘ بنتی ہی نہیں، کیونکہ رائے کا استعمال دونوں میں ہوتا ہے۔ [1] تجزیہ راقم کے نزدیک یہ دونوں اصطلاحات اپنی جگہ بجا اور حقیقت پر مبنی ہیں، امام ابن تیمیہ کے مقدمه في أصول التفسير سے لے کر اب تک کے تمام محققین اور ماہرین علوم القرآن نے ان اصطلاحات کو نہ صرف قبول کیا ہے، بلکہ ان کی بنیاد پر کتب تفسیر کی حد بندی بھی کی ہے۔ راقم کے مطابق درج بالا دونوں اشکالات محض لفظی اور سطحی نوعیت کے ہیں، صرف الفاظ و کلمات کے گورکھ دھندے میں الجھنے سے یہ اشکالات پیدا ہوتے ہیں، روح و معنیٰ کی طرف اگر نظر رہے تو یہ اشکالات دور ہو جاتے ہیں۔
Flag Counter