Maktaba Wahhabi

177 - 250
یہ انتہائی اہم اور نازک سوال ہے۔ مکتب تفسیر بالمأثور سے وابستہ ائمہ و علماء نے اس کے لیے قواعد و ضوابط تحریر کیے ہیں، اس موضوع کے ذیل میں ان میں سے چند اہم قواعد مثالوں کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں۔ عربی لغت سے تفسیر کے اصول و قواعد (1) کثیر الاستعمال افصح معانی مراد لینا، قلیل اور شاذ کو ترک کرنا قرآن مجید افصح الاکلام ہے اور یہ عربوں کے معروف معانی کے مطابق نازل ہوا ہے، اس لیے اس سے افصح اور معروف معانی ہی مراد لیے جائیں گے، شاذ اور قلیل استعمالات ترک کر دئیے جائیں گے۔ مثال: فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿ لَّا يَذُوقُونَ فِيهَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًا﴾ (النباء:24) ’’نہ اس میں ٹھنڈک کا مزہ چکھیں گے اور نہ پانی کا۔‘‘ امام ابن جریر طبری اس آیت کی تفسیر میں درج بالا قاعدے کو بڑی خوبصورتی سے واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: بعض علماء نے کلامِ عرب سے استشہاد کرتے ہوئے، یہاں ’’ بَرْدًا‘‘ سے نیند مراد لی ہے۔ اس طرح آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ جہنمی نہ تو وہاں نیند چکھیں گے اور نہ پینے کی کوئی چیز ۔۔ (مزید لکھتے ہیں) ۔۔ نیند اگرچہ پیاس کی شدت کو ٹھنڈا کر دیتی ہے اس وجہ سے اسے ’’ برد‘‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ لفظ ’’ برد‘‘ نیند کے لیے معروف نہیں۔ ’’وتأويل كتاب اللّٰه علي الأغلب من معروف كلام العرب دون غيره‘‘ [1] ’’کتاب اللہ کی تفسیر کلامِ عرب کے معروف اور کثیر الاستعمال معنی سے کی جائے، نہ کہ دیگر (شاذ و نادر) معانی سے۔‘‘
Flag Counter