Maktaba Wahhabi

57 - 250
فصل: 2 تفسیر بالمأثور: معنی و مفہوم، ضرورت و اہمیت جس طرح قرآن مجید کا متن اپنے ایک ایک حرف، اعراب اور طرزِ ادا کے ساتھ محفوظ ہے۔ اسی طرح قرآن مجید کے مطالب و معانی نہ صرف محفوظ بلکہ عہد نبوی میں ہی عمل کے خوبصورت سانچے میں بھی مثالی طور پر ڈھل چکے تھے۔ سب سے پہلے خود صاحب وحی نے قرآن مجید کو سمجھا ہے، اس بحر بیکراں میں غوطہ زنی کر کے اس کی تہہ تک اترے ہیں اور فکر و تدبر کی راہیں متعین کیں۔ اس لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و فرمودات، افعال و اعمال اور آپ کی جمیع تقریرات درحقیقت تدبر قرآن کا ماحصل ہیں۔ معلم قرآن سے صحابہ کرام نے نہ صرف تفسیر قرآن سیکھی، بلکہ فکری و نظری، عملی و واقعاتی اور روحانی و ایمانی سطحوں پر اسے اپنی زندگی کے نقشوں میں ڈھالا اور اس کا اس قدر اہتمام کیا کہ قرآن حکیم کو نازل کرنے والی ذات ان سے خوش ہو گئی۔ منہج تفسیر بالمأثور اس بات کا متقاضی ہے کہ اب رہتی دنیا تک آنے والے انسان، چاہے وہ کتنے ہی ذہین و فطین کیوں نہ ہوں، قرآن مجید کا صحیح فہم بہرحال اولین طور پر احادیث رسول اور اقوال صحابہ سے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ قرآنی حقیقت کی تلاش خود صاحب قرآن کے ارشادات و افعال یا پھر قرآن کے قائم کردہ پہلے معاشرے اور صحابہ کرام کے علم و عمل کے ذخیروں ہی میں ممکن ہے۔ منہج تفسیر بالمأثور کے یہی بنیادی اصول ہیں اور تفسیر طبری سے لے کر جدید دور تک جمہور مفسرین نے اسی منہج کو اپنایا ہے۔ آئندہ صفحات میں اس منہج کی ضرورت و اہمیت پر ایک عمومی تبصرہ کیا جائے گا۔ [1]
Flag Counter