Maktaba Wahhabi

174 - 250
کے خلاف ہے۔ تاہم اگر فرض کر لیا جائے تو بھی اس بارے میں سلف کا اختلاف ہے، بعض فتویٰ تابعی کی اتباع ایسی صورت میں ضروری قرار دیتے ہیں، جب اس کے مخالف کسی صحابی یا تابعی کا قول منقول نہ ہو، بعض حنابلہ اور شوافع کی یہی رائے ہے، اکثر اسلاف صحابی اور تابعی کے مابین فرق کے قائل ہیں اور ظاہر ہے ان دونوں شخصیتوں میں فرق تو ہے۔ تفسیر تابعی سے حجت اخذ کرنے کے بارے میں امام احمد کے دو اقوال ہیں۔ ائمہ کی کتب تفسیر میں غور کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اقوال تابعین سے حجت اخذ کرنے میں بھری پڑی ہیں۔‘‘ مندرجہ بالا اقتباس سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اقوالِ تابعین کے بارے سلف میں اختلاف ہے، وہاں یہ اہم حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ اسلاف تابعین کے فقہی اقوال اور تفسیری اقوال میں فرق کرتے تھے۔ تابعین کے تفسیری اقوال کو بالخصوص زیادہ اہمیت دیتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ائمہ مفسرین کی کتب اقوالِ تابعین سے بھری ہوئی ہیں۔ راجح بات یہی ہے کہ تابعی کے تفسیری قول کو حجت قرار نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ اس کے حجتِ شرعیہ ہونے کے دلائل قوی نہیں ہیں۔ لیکن بہرحال تابعی کا قول بعد والوں کے اقوال سے بہتر ہے اس لیے کہ انہوں نے تفسیر صحابہ سے سیکھی ہے اور عربی سلیقے سے بھی نسبتاً بہتر واقف ہیں۔ بالخصوص مجاہد، عکرمہ، سعید بن جبیر، عطاء بن ابی رباح، حسن بصری، مسروق، سعید بن المسیب، ابو العالیہ، ربیع، قتادہ اور ضحاک جیسے کبار تابعین رحمہم اللہ کے اقوال، جبکہ سندِ صحیح سے ثابت ہوں، مفسرین کے ہاں خاص اہمیت کے حامل ہیں۔[1] تفسیرِ صحابہ و تابعین کے بارے بعض اہم اصول (1) تفسیرِ صحابہ و تابعین کی اسانید پر تحقیق انتہائی اہمیت کی حامل ہے، بصورت دیگر اس
Flag Counter