Maktaba Wahhabi

250 - 250
لیے مزید علم و تحقیق کی ضرورت ہے اور موجودہ علم اسے سمجھنے میں ناکام ہوا ہے۔ [1] (5) کسی بھی جدید سائنسی نظریے یا جدید سائنسی مشاہدے کو قرآن مجید کا عین مدلول نہیں کہا جائے گا۔ کیونکہ اس سے خود صاحبِ قرآن، صحابہ کرام اور اسلافِ امت کے فہم قرآن پر حرف آتا ہے اور یہ تمام عرب امیین کے فہم کے بھی منافی ہے۔ نیز قرآن مجید کے بنیادی مقصد نزول کے بھی خلاف ہے۔ مولانا عبدالمالک کاندھلوی لکھتے ہیں: ’’قرآن نہ ہوائی، جہاز اور راکٹوں کی صنعت سکھانے کے لیے نازل ہوا ہے، اور نہ اس کی تعلیم مقصدِ رسالت ہے، بلکہ مقصد وحی اور غرض رسالت تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیہ نفوس ہے۔‘‘ [2] سائنسی نظریے کو مدلول قرآن ثابت کرنے کی تردید کرتے ہوئے مولانا عبدالمالک کاندہلوی مزید لکھتے ہیں: ’’اگر اور کوئی نقصان سمجھ میں نہیں آتا تو سب سے بڑھ کر یہ نقصان تو سرسری نظر سے ہی معلوم ہو جائے گا اور یہ قباحت لازم آئے گی کہ اس معیار پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی زندگیاں ہی قرآنی مضامین سے بالکل بے تعلق نظر آئیں گی، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو کسی مجلس میں ان صنعتی ترقیات کو بیان فرمایا اور نہ ہی صحابہ نے ان کو کبھی ذکر کیا۔ نہ سیدنا ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما جیسے جلیل القدر صحابہ سے یہ مضامین نقل کیے گئے۔‘‘ تو سوچیے کہ اگر ان مضامین کا نام ’’علوم القرآن‘‘ قرار دیا جائے تو کیا یہ لازم نہیں آئے گا کہ علوم القرآن سب سے زیادہ ناواقف یہی حضرات تھے؟[3]
Flag Counter