Maktaba Wahhabi

111 - 250
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قراءت میں یہ اضافہ ہے: ’’ فان فاء وافيهن‘‘ اس قراءت سے رجوع کی صورت و مدت متعین ہو گئی ہے۔ (البقرۃ:226) مثال نمبر 5 سورۃ المائدہ میں ارشاد الٰہی ہے: ﴿ لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰه بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ ۖ﴾ (المائدہ:89) ’’اللہ تمہاری بے ارادہ قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا، لیکن پختہ قسموں پر (جن کے خلاف کرو گے) مواخذہ کرے گا۔‘‘ ایک دوسری قراءت میں باب مفاعلہ سے الف کے اضافہ کے ساتھ ’’ عاقدتم‘‘ جبکہ ایک اور قراءت میں تشدید کے بغیر ’’ عَقَدْتُمْ‘‘ پڑھا گیا ہے۔ بلا تشدید و الف ’’ عقدتم‘‘ والی قراءت سے معلوم ہوتا ہے کہ مطلق ’’عقد‘‘ مراد ہے۔ [1] (3) بیانات قرآنیہ کے ذریعے سے قرآن مجید کے مکملات کی توضیح اور مبہمات کی تعیین کرنا مجمل کی لغوی تعریف عربی لغت میں کسی چیز کے اندر موجود ابہام کے لیے کہتے ہیں: ’’ أجْمَلَ الأمْرَ‘‘ اس نے معاملے کو مبہم رکھا، کسی چیز کو علیحدہ علیحدہ کیے بغیر جمع کرنے کے لیے بھی یہ تعبیر مستعمل ہے، کہتے ہیں: ’’ أجملَتُ الشَّئَ إجمالاً‘‘ میں نے وہ چیز بخوبی جمع کر لی، مختصر کلام کو بھی ’’ المجمل‘‘ کہتے ہیں۔ [2]
Flag Counter