Maktaba Wahhabi

251 - 250
مزید لکھتے ہیں: ’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ خداوند عالم نے بلاوجہ قرآن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا اور صحابہ کو اس کا اولین مخاطب بنایا۔ اچھا ہوتا لندن کی کسی یونیورسٹی کے فلاسفر پر اترتا۔ ’’العياذ باللّٰه ثم العياذ باللّٰه‘‘ بظاہر ممکن نہیں کہ کوئی مسلمان یہ سوچنے کی بھی جراءت کر سکے۔‘‘ ایک اور موقع پر لکھتے ہیں: ’’جدید تحقیقات اور سائنسی ترقیات کو مقصد کائنات کا دلفریب عنوان دے کر، مضامین قرآن میں داخل کرنے والوں کے طرز سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو قرآن کا موضوع ہی معلوم نہیں۔ قرآن نہ تو فلسفہ ہے اور نہ سائنس کی کوئی کتاب ہے، نہ تاریخ و جغرافیہ ہے وہ تو طبِ روحانی کی آخری اور بے مثال کتاب ہے، جس میں روحانی امراض کے علاج کو بیان کیا گیا ہے۔‘‘ [1] (6) اگر قرآن مجید نے کسی حقیقت کو بیان کیا ہو اور سلف سے تفسیر ثابت شدہ ہو اور جدید سائنس سے اسی تفسیر کے مطابق اس کی مزید تفصیلات یا دقائق و حقائق معلوم ہو جائیں۔ تو ایسی جدید معلومات کو تفسیرِ قرآن میں پیش کرنا، نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہے۔[2] اس صورت میں بھی اسے قرآنی آیت کا مدلول نہیں کہا جائے گا، مدلول تو وہی ہے جو آثار و اقوال اور لغت سے ثابت شدہ ہے اور پہلے سے معلوم ہے، جدید سائنسی معلومات اس مدلول میں توسیع سمجھی جائیں گی۔ [3] علی سبیل المثال (1) فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا﴾ (الفرقان:2) ’’اور جس
Flag Counter