Maktaba Wahhabi

188 - 250
پہلی وجہ کلامِ الٰہی اس حوالے سے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، بلاشبہ مکان و زمان کی حدود سے بالاتر ہے اور رہتی دنیا تک کے لیے ایک عالمگیر پیغام ہے، لیکن اس کی عملی تعبیر بہرحال ایک خاص زمانے میں، ایک خاص گروہ کے اندر براہِ راست صاحبِ پیغام کی زیر نگرانی تشکیل پائی ہے۔ اس لحاظ سے کوئی بھی کلام اس وقت تک فصیح و بلیغ نہیں ہو سکتی جب تک اس میں مخاطب کی نفسیات، اس کی ذہنی سطح، اس کی صورتحال کے عملی تقاضے پیش نظر نہ رکھے جائیں۔ اسے ہی علم بلاغت میں ’’مطابقة الكلام لمقتضي الحال‘‘ (کلام کا صورتحال کے مطابق ہونا) کا نام دیا گیا ہے۔ بلکہ بعض دفعہ ایک ہی لفظ ایک صورتحال میں ایک معنی دیتا ہے اور وہی لفظ کسی دوسری صورتحال میں یکسر مختلف معنی پیش کر رہا ہوتا ہے۔ علی سبیل المثال: استفہام کے لیے جو الفاظ مستعمل ہیں، ان کے معانی میں تغیر و تنوع ’’مُقْتَضَي الحال‘‘ یعنی صورتحال کے تقاضے اور سیاق و سباق سے طے ہوتا ہے، ایک ہی کلمہ استفہام کہیں استفسار کے لیے ہوتا ہے اور کہیں انکار کے لیے، ایک مقام پر استعجاب کا مفہوم دے رہا ہوتا ہے اور دوسرے مقام پر زجروتوبیخ کا۔ اس طرح صیغہ امر کسی موقع پر اباحت کا مفہوم دیتا ہے اور کہیں فرض و وجوب کا۔ ایک ہی کلمہ اور ایک ہی اسلوب میں معانی کا یہ تغیّر مقتضی الحال سے سمجھا جاتا ہے، متکلم کا اندازِ کلام اور اشارات، مخاطب کی صورتحال اور نفسیات کا فہمِ کلام میں بہت بڑا حصہ ہوتا ہے، ظاہر ہے یہ ساری صورتحال خود کلام کے اندر منتقل نہیں ہوتی، بلکہ یہ صورتحال نفس کلام سے ایک خارجی اور بیرونی چیز ہوتی ہے۔ اسبابِ نزول درحقیقت مفسرین کی طرف سے مقتضی الحال کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کی ایک اہم کاوش ہے، کیونکہ بعض اجزائے کلام ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ اگر قرائن اور مقتضی الحال کو پیش نظر نہ رکھا جائے تو فہم کلام کی صحیح راہیں معدوم یا محدود ہو سکتی ہیں یا کم از کم اس کے مخصوص
Flag Counter