Maktaba Wahhabi

75 - 250
کائنات تو پھر کائنات ہے اور سائنس پھر سائنس، اس میں بہت کچھ ایسی گنجائش ہے جو قرآن میں نہیں دی جا سکتی۔ لیکن اس مسئلہ میں صرف یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ سلف اول سے منقطع ہو کر مطالعہ تفسیر و تدبر قرآن بہرحال کوئی علمی رویہ نہیں۔ [1] (12) منہج تفسیر بالمأثور کی قانونی اہمیت ایک عدالت میں آنے والا ہر کیس اپنی نوعیت میں دوسرے ہر کیس سے مختلف ہو سکتا ہے اور اس کے باعث ہر نئے کیس کا فیصلہ دوسرے سے مختلف اور نیا ہونا متوقع ہو سکتا ہے، اس لحاظ سے حاضر وقت عدالتوں اور قاضیوں کے ذاتی میلانات و رجحانات اور کردار کو بہت حد تک دخل ہو سکتا ہے، لیکن پھر بھی نئے آنے والے کیس کی بابت موجودہ عدالتیں گزشتہ عدالتوں کے کیے ہوئے فیصلوں کو مدنظر رکھنے کی پابند ہوتی ہیں جنہیں ’’نظائر Precedents‘‘ کہا جاتا ہے۔ قانون کتابوں میں بےشک موجود ہو مگر عدالتی نظام اس مفروضہ کو درست نہیں سمجھتا کہ کوئی جج دنیا میں آج پہلی بار ’’عدل‘‘ قائم کرے گا! اور یہ کہ کوئی شخص دنیا میں آج پہلی ہی بار قانون کا ’’صحیح فہم‘‘ پائے گا اور ’’معتبر تشریح‘‘ سامنے لائے گا۔ [2] اب یہ ’’سلف‘‘ جس چیز کا نام ہے وہ Predecessors کا ہی لفظی ترجمہ ہے۔ ایک سلسلے کو جو چیز سلسلہ بناتی ہے وہ Predecessors کا ہی التزام ہے۔ منہج تفسیر میں اس عمل کو ہی ’’مأثور‘‘ کہہ دیا گیا ہے۔ یہ مثال بہرحال دنیاوی اور انسان کے وضع کردہ قانون کی بابت ہے۔ کتاب اللہ ایسی ’’کتاب قانون‘‘ ہے جسے خود رب العالمین نے اپنی نگرانی میں اتار کر اس کے ایک ایک لفظ کا ذمہ لیا، اس کی تشریح و تفسیر کی ضمانت دی ۔۔۔ ﴿إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ﴾ ۔۔۔ شارح کی تعیین کی ۔۔۔ ﴿لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ﴾ ۔۔۔ شارح نے قول و عمل کے ذریعے اپنی ذات سے مجرد ہو کر ۔۔۔ ﴿وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ﴾ ۔۔۔ اس کی تشریح کی، اس کے
Flag Counter