Maktaba Wahhabi

217 - 250
(1) فہم قرآن میں عقل و اجتہاد اور غوروفکر سے کام لینا، احادیث و آثار، اقوالِ سلف اور عربی لغت کی اوضاع کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ تفسیر بالرأی المحمود ہے۔ (2) تفسیر قرآن میں محض عربی لغت پر اعتماد کرتے ہوئے یا محض نظریات و خواہشات کی تائید کے لیے احادیث و آثار اور اقوالِ سلف سے صرفِ نظر کرتے ہوئے رائے کو استعمال کرنا یہ تفسیر بالرأی المذموم ہے۔ [1] تفسیر بالرأی میں حزم و احتیاط یقیناً تفسیر بالرأی المحمود کے جواز کا مطلب یہ قطعاً نہیں کہ ہر شخص کو تفسیر قرآن میں رائے زنی کی عام اجازت دے دی جائے اور کتاب الٰہی کو منحرفین و جاہلین کے لیے بازیچہ اطفال بنا دیا جائے۔ تفسیر قرآن دیگر علوم کی طرح محض ایک علم ہی نہیں بلکہ یہ تو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف براہِ راست ایک چیز کی نسبت ہے۔ ثابت شدہ شرعی علم اور قوی بنیاد کے بغیر اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی بات منسوب کرنا انتہائی احمقانہ جسارت اور کبیرہ گناہ ہے۔ اس جسارت کو خود باری تعالیٰ نے شرک کے ساتھ ملا کر ذکر کیا ہے: ﴿ قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللّٰه مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللّٰه مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴾ (الاعراف:33) ’’کہہ دو کہ میرے پروردگار نے تو بے حیائی کی باتوں کو ظاہر ہوں یا پوشیدہ اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کرنے کو حرام کیا ہے اور اس کو بھی کہ تم کسی کو اللہ کا شریک بناؤ جس کی اس نے کوئی دلیل نازل نہیں کی اور بغیر علم کے اللہ کے بارے میں کوئی بات کہنے کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کو بھی غیر معلوم اشیاء میں اپنی طرف سے کچھ کہنے کی اجازت نہیں دی اور انہیں علم الٰہی کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ
Flag Counter