Maktaba Wahhabi

193 - 250
یا ایک دوسرے سے پوچھا: فلاں، فلاں اور فلاں صحابہ کرام تو شہید ہو چکے، شہید ہو چکے ہیں، جبکہ شراب ان کے پیٹوں میں تھی۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔[1] مذکورہ سبب نزول سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ آیت مبارکہ میں صحابہ کے ذہن میں پیدا ہونے والے اشکال کو رفع کیا گیا ہے۔ جب تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی، اس حالت میں شراب پی کر جو صحابہ رضی اللہ عنہم جام شہادت نوش کر چکے یا فوت ہو چکے ہیں، ان پر کوئی گناہ نہیں کیونکہ ان کا خاتمہ ایمان اور تقویٰ پر ہوا ہے، شراب نوشی ان اہل ایمان و تقویٰ کے حق میں اس لیے حرام نہیں کہ اس وقت یہ حرام ہی نہیں کی گئی تھی۔ سببِ نزول کی روشنی میں مفہوم یہ ہو گا کہ اہل ایمان اور صالح لوگوں پر بوقت اباحت کسی مباح چیز کو کھا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں، جیسا کہ غزوہ اُحد میں کئی صحابہ کرام شراب پی کر شریک جہاد ہوئے اور انہوں نے جام شہادت نوش کیا۔ [2] مثال نمبر 2 صفا و مروہ کے درمیان سعی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللّٰه ۖ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا ۚ وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللّٰه شَاكِرٌ عَلِيمٌ ﴿١٥٨﴾﴾ (البقرۃ:158) ’’بےشک صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں، اس لیے بیت اللہ کا حج و عمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کر لینے میں کوئی گناہ نہیں، اپنی خوشی سے بھلائی کرنے والوں کا اللہ تعالیٰ قدردان ہے اور انہیں خوب جاننے والا ہے۔‘‘ صفا و مروہ کی سعی فرض ہے، لیکن قرآن کے الفاظ (کوئی گناہ نہیں) سے بعض صحابہ کو یہ شبہ ہوا کہ شاید یہ ضروری نہیں، عروہ بن زبیر رحمہ اللہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس
Flag Counter