Maktaba Wahhabi

212 - 250
’’ما قلت برأيي منذ أربعين سنة‘‘ [1] ’’میں نے گزشتہ چالیس سال سے محض اپنی رائے سے کچھ نہیں کہا۔‘‘ تفسیرِ قرآن میں اکثر کوئی نہ کوئی حدیث پیش کرتے۔ تفسیر طبری میں ان سے منقول تفسیری اقوال میں دو سو پانچ روایات مذکور ہیں۔ [2] اور سو سے زیادہ روایات میں انہوں نے قول صحابی پر اعتماد کیا ہے۔ تفسیر بالرائے کے بارے متضاد اقوال اور ان کی توجیہہ گزشتہ صفحات سے یہ بات مبرہن ہو کر سامنے آ چکی ہے کہ احادیث و آثار اور اقوال تابعین میں عقل و اجتہاد کی مدح و تعریف بھی ہے اور دیگر احادیث و آثار اور اقوال تابعین میں رائے کی خوب مذمت بھی کی گئی ہے۔ اس ظاہری تعارض اور تضاد کو کیسے زائل کیا جا سکتا ہے؟ اور اس بارے میں راہ حق و انصاف اور سبیلِ وسط و اعتدال کیا ہے؟ اس کی مختلف توجیہات درج ذیل ہیں: (1) ابن الأنباری کی توجیہہ مشہور نحوی امام و ماہر لغت ابن الأنباری رائے کی مذمت پر ’’مَنْ قَالَ فِي القُرآنِ بِرَأيِهِ، فَأَصَابَ، فَقَدْ أخْطَأ‘‘ کی توجیہہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’حَمَلَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ هَذَا الْحَدِيثَ عَلَى أَنَّ الرَّأْيَ مَعْنِيُّ بِهِ الْهَوَى , مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ قَوْلًا يُوَافِقُ هَوَاهُ , لَمْ يَأْخُذْهُ عَنْ أَئِمَّةِ السَّلَفِ , فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأَ , لِحُكْمِهِ عَلَى الْقُرْآنِ بِمَا لَا يُعْرَفُ أَصْلُهُ , وَلَا يَقِفُ عَلَى مَذَاهِبِ أَهْلِ الْأَثَرِ وَالنَّقْلِ فِيهِ‘‘ [3] ’’بعض اہل علم نے اس حدیث کا یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ رائے سے خواہش اور
Flag Counter