Maktaba Wahhabi

105 - 250
’’ والصواب من القول في ذالك عندنا ما قاله المفسّرون، وهو أنها من طين، وبذالك وصفها اله في كتابه في موضع، وذالك قوله: ﴿ لِنُرْسِلَ عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِّن طِينٍ ﴿٣٣﴾ مُّسَوَّمَةً عِندَ رَبِّكَ لِلْمُسْرِفِينَ ﴿٣٤﴾﴾‘‘ (الذاریات: 33) [1] ’’جن مفسّرین نے ’’ سجيل‘‘ کے معنی مٹی کیا ہے، ان کا قول درست ہے، کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا ہے: ’’تاکہ ہم ان پر مٹی کے پتھر برسائیں۔‘‘ درج بالا اقتباس سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ امام طبری تفسیری اقوال میں ترجیح دینے کے لیے تفسیر القرآن بالقرآن کا اصول اپناتے ہیں۔ اور ’’ سجيل‘‘ کی تفسیر ’’ طين‘‘ کی روشنی میں کرتے ہیں۔ مثال نمبر 2 فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَمِنْ آيَاتِهِ أَنَّكَ تَرَى الْأَرْضَ خَاشِعَةً فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ ۚ﴾ (حم السجدۃ:39) ’’اور (اے بندے یہ) اسی کی قدرت کے نمونے ہیں کہ تو زمین کو دبی ہوئی (یعنی خشک) دیکھتا ہے۔ جب ہم اس پر پانی برسا دیتے ہیں تو شاداب ہو جاتی ہے اور پھولنے لگتی ہے۔‘‘ ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿ وَتَرَى الْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ ’’اور (اے دیکھنے والے) تو دیکھتا ہے (کہ ایک وقت میں) زمین خشک (پڑی ہوتی ہے) پھر جب ہم اس پر مینہ برساتے ہیں تو شاداب ہو جاتی اور ابھرنے لگتی ہے۔‘‘ (الحج:5)
Flag Counter