Maktaba Wahhabi

62 - 250
(2) تاریخی اہمیت تفسیر قرآن کے نام سے برصغیر میں بالخصوص گزشتہ کئی دہائیوں سے بہت سے دلکش مناہج وجود میں آئے۔ اسلامی تاریخ میں بھی کئی مناہج منظر عام پر آئے، ان کی عمارتیں کچھ دیر کے لیے بڑی اونچی اٹھیں اور پھر بڑی بے چارگی سے ملبہ بنتی دیکھی گئیں۔ کئی فتنے زبان زدعام ہوئے، بالآخر زمانے کی گردش میں روپوش ہو رہے اور بڑا غلغلہ کرا لینے کے بعد زیادہ ہوا تو لائبریریوں کی شیلفوں میں ’’نگاہ مطالعہ‘‘ کے منتظر ہوئے۔ فہم دین میں بالعموم اور تفسیر قرآن میں بالخصوص وہ چیز جسے چودہ صدیوں سے دوام حاصل ہے اور کبھی اس کا سرنگوں ہونا ممکن نہیں اور جس سے ٹکرانے والا بالآخر چت ہوا، وہ اہل السنۃ کا منہج تفسیر، منہج فہم و اتباع ہے، جس میں التزام و اجتہاد، اتفاق و اجتماع اور اختلاف و تنوع سب کے دائرے طے شدہ ہیں۔ یہی وہ منہج ہے جسے صاحب قرآن اور تلامذہ صاحب قرآن سے نہ صرف باقاعدہ شرف تلمذ حاصل ہے بلکہ سند توثیق کا بھی حامل ہے۔ فہم دین کا معاملہ ہو یا تفسیر قرآن کا منہاج، اس امت کے اندر کسی راہ کا نیا ہونا ہی اس کے ٹھکرائے جانے کے لیے ایک بہت کافی اور معقول سبب ہے۔ اس کے سوا، اس کے مسترد کرنے کے لیے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں۔ ’’نیا‘‘ ہونے کے سوا اگر اس کے رد کرنے کے لیے کوئی اور دلیل دی جائے گی تو وہ از قبیل نوافل و مستحبات ہو گی نہ کہ از باب فرائض و واجبات۔ تفسیر قرآن کا معاملہ ہو یا فہم دین کا، تلاش حق کی بات ہو یا اتباع حق کا عمل، یہ سب اس امت کے اندر اس قدر تسلسل کے ساتھ ہوا ہے اور نسل در نسل، کڑی در کڑی اس شدید حد تک مربوط ہے اور کہیں رُکے یا روپوش ہوئے بغیر اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدھا بے ساختہ یوں جا ملتا ہے کہ سلف کے ذخیروں سے اور پہلوں کے ورثوں سے ایک بات کا ثبوت نہ دیا جا سکنا، ایک مکتبہ فکر یا منہج تفسیر کا محض کسی نئی ’’تحقیق‘‘ کے نتیجے میں سامنے آ جانا اور اس کا سلف سے منتاقض ہونا ہی اس کے ’’مُحْدَث‘‘ اور ’’ فَهُوَ رَدٌّ‘‘ ہونے پر مہر تصدیق کی حیثیت رکھتا ہے۔
Flag Counter