Maktaba Wahhabi

225 - 250
فصل: 10 تفسیر القرآن بالرأی المذموم تفسیر بالرأی میں ایک مفسر کا زیادہ تر انحصار اپنی ذاتی قابلیت، عقل و اجتہاد اور علمی و فکری رجحانات پر ہوتا ہے۔ اس لیے یہ میدان ایک طرف پرکشش، عصری معلومات سے بھرپور اور دلکش ہوتا ہے اور دوسری طرف یہ پرخار، نازک ترین اور حساس بھی ہے۔ جو مفسرین اس کی نزاکتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، شروط و آداب کو پس پشت ڈالتے ہوئے اس منہج تفسیر میں کود پڑتے ہیں وہ خود تو گمراہ ہوتے ہیں، دوسروں کے لیے بھی انحراف و ضلال کا باعث بنتے ہیں۔ اس طریقہ تفسیر کو ’’تفسیر بالرأی المذموم‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت یہ واضح کیا جائے گا کہ تفسیر بالرأی میں غلطی، گمراہی اور انحراف کے بنیادی عوامل کیا ہوتے ہیں؟ اور ایسے مفسرین کا طریقہ واردات کیا ہوتا ہے؟ خیر القرون میں بھی شاذ تفسیری اقوال اور جزوی تفردات موجود تھے، لیکن ایک مستقل مکتب فکر اور منہج کے طور پر ’’تفسیر بالرأی المذموم‘‘ کا آغاز فرقہ معتزلہ کے ظہور سے ہوا۔ اس بناء پر ’’تفسیر بالرأی المذموم‘‘ کا صحیح منظر جانے کے لیے سب سے پہلے مختصراً اس فرقے کا تعارف دیا گیا ہے۔ پھر ان کے اصول تفسیر بتائے گئے ہیں جو کہ حقیقت میں اصول نہیں، بلکہ ان کے خود ساختہ باطل نظریات ہیں جن کی بنیاد پر انہوں نے تفسیر قرآن پیش کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید دور میں بھی تفسیر بالرأی المذموم کے پیچھے تقریباً وہی قدیم معتزلہ والے نظریات اور وہی اسباب و عوامل کارفرما ہیں۔
Flag Counter