Maktaba Wahhabi

232 - 250
بعض معتزلہ نے تو اپنے مزعومہ عقیدہ کے پیش نظر ’’الی‘‘ کو حرف کی بجائے اسم بتلایا ہے اور اس کا معنی نعمت کیا ہے، کیونکہ ’’آلاء‘‘ بمعنی نعمت قرآن مجید میں مستعمل ہے اور اس پر شعری شواہد پیش کیے ہیں۔ [1] دوسری مثال: ﴿كَلَّمَ اللّٰه مُوسَىٰ تَكْلِيمًا معتزلہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ کلام کو تسلیم نہیں کرتے، لہٰذا ان کے نزدیک قرآن مجید کی قراءت متواترہ سے صرفِ نظر سورۃ النساء (164) کی آیت میں لفظ جلالہ ’’اللہ‘‘ مرفوع نہیں، بلکہ منصوب ہے اور مفعول بہ ہے، جبکہ ’’موسیٰ‘‘ فاعل ہے، اور آیت کا معنی یہ ہے: ’’کہ موسیٰ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے۔‘‘ بعض دیگر معتزلہ کے نزدیک ’’كَلَّمَ‘‘ کلام سے مأخوذ نہیں، بلکہ ’’كَلِمَ‘‘ سے مأخوذ ہے یعنی خوب آزمایا اور مختلف ابتلاء ومِحَن میں مبتلا رکھا۔ البتہ معتزلہ کے امام زمخشری اس دوسری تأویل کو ناپسند کرتے ہیں اور پہلی کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ معتزلہ کے نزدیک تفسیر کا بنیادی اصول ’’عقل پرستی‘‘ ہے اور ان عقائد کا اثبات ہر صورت ضروری ہے جو عقل کی بنیاد پر ثابت ہو چکے ہیں۔ اس بارے میں ڈاکٹر فہد الرومی لکھتے ہیں: ’’كان من أصول منهجهم في التفسير تحكيم العقل في الأمور الغيبيّة تحكيما مطلقا، فأنكروا حقائق كثيرة أثبتها اهل السنة استنادا الي النصوص، فأنكرها المعتزله استناد الي العقل المجرد‘‘ [2] ’’غیبیات میں عقل کو مطلقاً حاکم قرار دینا معتزلہ کے تفسیری منہج کا ایک اصول رہا ہے، اس بنیاد پر معتزلہ نے بہت سے ایسے حقائق کا انکار کیا ہے، جو اہل السنۃ
Flag Counter